Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ووٹرز کے لیے ’محدود چوائس‘، ایران میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ آج

صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جان سے چلے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں اچانک موت کے بعد ملک میں آج نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران میں انتخابات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ملک میں مایوسی کی لہر بڑھ رہی ہے اور عوام سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے چار وفادار امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔
اگرچہ اس انتخاب سے ملک کی پالیسیوں میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے تاہم ساڑھے تین عشروں سے اقتدار میں رہنے والے سپریم لیڈر 85 سالہ آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی متاثر ہو سکتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے عوام پر زور دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹرز باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں تاکہ موجودہ بحران کو دور کیا جا سکے جو معاشی مشکلات اور سیاسی و سماجی آزادی پر قدغنوں اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کے باعث بڑھا ہے۔
ایران میں پچھلے چار برس کے دوران ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں کمی سامنے آئی ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور انہی کو سیاسی و سماجی پابندیوں کا سامنا ہے۔
نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ ایرانی وقت کے مطابق آج جمعے کو صبح آٹھ بجے شروع ہوئی اور شام چھ بجے تک جاری رہے گی، تاہم عام طور پر پولنگ کا  وقت آدھی رات تک بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔
چونکہ گنتی کا عمل عام طور پر الیکٹرانک طریقے سے نہیں ہوتا اس لیے حتمی نتیجے کا اعلان دو روز میں متوقع ہو گا جبکہ ابتدائی اعداد و شمار جلد سامنے آ سکتے ہیں۔
اگر کوئی بھی امیدوار پول ہونے والے ووٹوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ حاصل نہیں کرتا تو نتائج کے اعلان کے بعد پہلے جمعے کو سر فہرست دو امیدواروں کے درمیان رن آف مقابلہ ہوتا ہے۔
الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے تین انتہائی سخت گیر موقف رکھتے  ہیں جبکہ ایک مسعود پزشکیان کسی حد تک اعتدال پسند ہیں جن کو ایک اصلاح پسند دھڑے کی حمایت حاصل ہے۔ ان کو حالیہ برسوں کے دوران بڑی حد تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں میں تین انتہائی سخت گیر اور ایک اعتدال پسند سمجھے جاتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

ایران کے حکومتی نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہونے والے انتخابات میں کم ہوتے ٹرن آؤٹ سے ظاہر ہے کہ نظام کی قانونی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
2021 کے الیکشن میں صرف 48 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں ابراہیم رئیسی اقتدار میں آئے جبکہ تین ماہ قبل ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں ٹرن آؤٹ 41 فیصد کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا۔
نئے صدر کے حوالے سے ایسی کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ جوہری پروگرام اور مشرق وسطٰی میں عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کے حوالے سے ایران کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں گے۔
خیال رہے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کو آذربائیجان سے واپسی پر ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جان سے چلے گئے تھے۔
9 جون کو امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سابق صدر محمد احمدی نژاد بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے تاہم رہبر کونسل نے ان کو روک دیا تھا۔
رہبر کونسل کی طرف سے منظور شدہ امیدواروں کے نام سپریم لیڈر خامنہ ای کے زیرنگرانی علما اور فقہا کا ایک پینل تجویز کرتا ہے۔ ایران کی شیعہ تھیوکریسی کے سامنے اس وقت تیزی سے آگے بڑھتے جوہری پروگرام پر کشیدگی اور اسرائیل حماس جنگ جیسے چینلجز ہیں۔
رہبر کونسل نے خاتون یا ملک کی حکمرانی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والی کسی شخصیت کو قبول نہ کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھی۔
ایران کے صدراتی انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران اور مغرب کے درمیان یوکرین کے خلاف روس کو مسلح کرنے پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔

شیئر: