Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی جہاز بھیج رہے ہیں: امریکی محکمہ دفاع

وزیر دفاع لائیڈ آسٹن یہ فیصلہ کریں گے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کتنے لڑاکا طیارے بھیجنے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطٰی میں جنگی طیاروں کا ایک سکوارڈن بھیجے گا جبکہ خطے میں اپنا ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی تعینات رکھے گا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مشرق وسطٰی میں ایران اور اُس کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ممکنہ حملوں سے اسرائیل کو دفاع میں مدد دینے اور پہلے سے موجود امریکی افواج کی حفاظت کے لیے پینٹاگون خطے میں فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔
جمعے کی شام ایک بیان میں پینٹاگون نے کہا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی اضافی بیلسٹک میزائل دفاعی صلاحیت کے حامل کروزرز اور ڈسٹرائرز کو یورپی اور مشرق وسطیٰ کے خطوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے اور وہ وہاں مزید زمینی بیلسٹک میزائل دفاعی ہتھیار بھیجنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
قبل ازیں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خطے میں کشیدگی بڑھنے کے بعد امریکہ کی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق فوجی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ خطے میں رُونما ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد امریکی حکومت مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
’رواں ہفتے تہران میں حماس کے سینیئر رہنما اسماعیل ہنیہ سمیت اہم شخصیات کی ہلاکت کے بعد امریکہ اپنی جنگی تیاریوں کو بڑھانے کے لیے ’ضروری اقدامات‘ کر رہا ہے۔‘
مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورت حال سے واشنگٹن میں یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اسرائیل اور ایران کی لڑائی میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس لڑائی میں لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ، یمن میں حوثی اور غزہ میں حماس بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے تاحال یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے مشرقِ وسطیٰ میں مزید کتنے لڑاکا طیارے بھیجنے ہیں اور اس کا حتمی فیصلہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور دیگر حکام کریں گے۔
ذرائع نے نیویارک ٹائمز کو مزید بتایا کہ اس خطے میں بھیجنے جانے والے جنگی طیاروں میں اسرائیل کے دفاع کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔
’تاہم اس اقدام سے یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔‘

شیئر: