’مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا گیا‘، چمن میں دھرنا دوبارہ شروع
’مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا گیا‘، چمن میں دھرنا دوبارہ شروع
منگل 13 اگست 2024 21:19
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے سرحد کے قریب رہنے والی آبادی کے خاندانی رشتوں اور روزگار کو متاثر کر دیا ہے (فوٹو: صادق اچکزئی)
افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کےضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے نفاذ کے خلاف ایک بار پھر دھرنا شروع کردیا گیا ہے-
سرحد پر سامان کی ترسیل کے کام سے وابستہ مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کے اس احتجاج میں منگل کو لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد نے اس سے قبل 274 دنوں تک اسی مقام پر جاری رہنے والے دھرنے کو21 جولائی کو مطالبہ تسلیم کرنے کی یقین دہانی پر ختم کر دیا تھا۔
تاہم 23 دنوں کے بعد آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد نے یہ کہہ کر اپنا احتجاج دوبارہ شروع کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا گیا۔
دھرنے کی قیادت کرنےوالے صادق اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ عسکری حکام نے یہ یقین دلایا تھا کہ سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خاتمے کے ان کے مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں بلوچستان کے سابق نگراں وزیر داخلہ عنایت اللہ کاسی ایڈووکیٹ اور قبائلی رہنماء حاجی لالو اچکزئی ضامن بنے اور عسکری حکام کی ایما پر دھرنے میں آکر اعلانات کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تین ہفتوں کے انتظار کے باوجود وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ لوگوں کو سرحد پر روکا جارہا ہے، انہیں تنگ کیا جا رہا ہے، اس لیے ہم نے سرحد پر کام کرنے والے لغڑیوں(محنت کشوں)، تاجروں اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اپنا احتجاج دوبارہ شروع کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ چمن، قلعہ عبداللہ اور افغان سرحدی شہر سپین بولدک کے رہائشیوں کو صرف شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آمدروفت کی اجازت دی جائے۔
چمن میں سرحد سے چند سو قدم کی دوری پر پہلے دھرنے کا آغاز 21 اکتوبر 2023 سے ہوا تھا جب اس وقت کی نگراں وفاقی حکومت نے 70 برسوں میں پہلی بار پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی تھی۔
اس سے پہلے روزانہ 20 سے 30 ہزار پاکستانی اور افغان باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد عبور کرتے تھے۔ ان میں سے بیشتر چمن اور سپین بولدک کے وہ مقامی مزدور تھے جو کندھوں پر سامان کی ترسیل کر کے روزگار کماتے تھے۔ ان مزدوروں کو مقامی زبان میں ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔
آمدروفت کے لیے ان نئی شرائط کے نفاذ کے خلاف لغڑیوں نے احتجاجی دھرنا شروع کیا جو 274 دنوں تک مسلسل جاری رہا۔ شہر کی تاجر تنظیموں اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کی۔
احتجاج کے دوران چمن میں معاملات زندگی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر رہے۔
دھرنے کے ابتدا میں چار ماہ تک مظاہرین نے ہر قسم کی تجارت کو بند رکھا۔ اس دوران جھڑپوں میں متعدد مظاہرین ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
صادق اچکزئی کے مطابق ’ہمارا یہ دھرنا بھی اسی مقام پر پہلے کی طرح دن رات جاری رہے گا۔ بدھ کو چمن میں بڑی احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ ہم اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
سرحد پر تعینات سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت سرحد پر کام کرنے والے افغان مزدوروں کو چمن سرحدی گیٹ کے قریب ٹیکسی سٹینڈ تک جبکہ پاکستانی مزدوروں کو افغان علاقے ویش منڈی تک جانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ باقی تمام لوگوں کے لیے ون ڈاکیومنٹ رجیم کی پالیسی نافذ ہے۔
پاکستانی حکومت سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے نفاذ کے فیصلے کو حتمی قرار دیتی ہے اور اس فیصلے کو سکیورٹی مسائل سے جوڑتی ہے۔
حکومت سمجھتی ہے کہ آمدروفت میں آسانیوں کا فائدہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افراد اور سمگلنگ میں ملوث ناپسندیدہ عناصر اٹھاتے ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے سرحد کے قریب رہنے والی آبادی کے خاندانی رشتوں اور روزگار کو متاثر کر دیا ہے۔
صادق اچکزئی کے مطابق ’ہم آمدروفت کو قانونی بنانے کے مخالف نہیں لیکن سات دہائیاں پہلے جو کرنا چاہیے تھا، اگر وہ ستر برس بعد کیا جارہا ہے تو کم از زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف آبادی کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں ان کی زبان، ثقافت ایک ہیں، آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔باڑ لگنے سے پہلے تک ان کے قبرستان اور مساجد تک ایک تھی۔ اب انہیں چند سو قدم کی دوری پر سرحد پار بہاگئی اپنی بہن سے ملنے، اپنی فصل کو پانی دینے یا پھر اپنے رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کے ایک تکلیف دہ ،طویل اور مشکل طریقے کو اپنانے کا کہا جا رہا ہے۔
صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرحد کے قریب رہنے والوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے انہیں آمدروفت میں آسانی دی جاتی ہیں تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
ان کے مطابق بہت سے لوگوں کا کاروبار سرحد پار ہے جو گزشتہ دس ماہ سے بند ہے۔ پہلے لوگ روزانہ آتے جاتے تھے ، سرحد پر سامان کی ترسیل کر کے یومیہ اجرت کماتے تھے۔ اب پاسپورٹ کی شرط لاگو کر کے یکدم ان سے روزگار چھین لیا گیا ہے، خاندان سے انہیں دور کر لیا گیا ہے۔
صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ دونوں اسلامی اور برادر ہمسائیہ ممالک ہیں انہیں سرحد کے قریب رہنےوالوں کی آمدروفت کو آسان بنانے کے لیے ایک مستقبل حل تیار کرنا چاہیے جس میں مقامی آبادی کے روزگار، سماجی رابطوں اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ شامل ہو۔