پنجاب حکومت کے مطابق سپیشل اکنامک زونز پر اب نئے سرے سے کام شروع ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیکسٹائل سٹی اور فٹ ویئر سٹی بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے میں چین کی مختلف کمپنیوں کے 25 کاروباری افراد نے شرکت کی ہے۔
تاہم سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ 15 برسوں میں پنجاب میں شروع کیے جانے والے ایک درجن سے زائد سپیشل اکنامک زونز میں سے صرف ایک آدھ ہی مکمل ہوا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کو حالیہ برسوں سے شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں برآمدات اور پیداواری ذرائع میں مسلسل کمی ہے۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت 25 سپیشل اکنامک زونز اس کے علاوہ ہیں جن پر کام کئی سالوں سے ٹھپ ہے۔
پنجاب میں کچھ سپیشل اکنامک زونز تو ایسے ہیں جن پر دس سالوں میں کام شروع ہی نہیں کیا جا سکا۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے بڑے غیرفعال منصوبے لاہور نالج پارک کو نواز شریف آئی ٹی سٹی کے نام سے دوبارہ شروع کیا ہے۔
یہ منصوبہ پچھلے دس سالوں سے صرف کاغذوں میں ہی ہے۔ تاہم اب یہ منصوبہ سینٹرل بزنس اتھارٹی کے حوالے کیا گیا ہے۔
سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (سی بی ڈی) خود بھی لاہور کے دل پرانے والٹن ایئرپورٹ کے 125 ایکڑ پر عمران خان دور میں شروع ہوا تاہم کئی سال گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے۔
پنجاب کے محکمہ انڈسٹریز کی دستاویزات کے مطابق پچھلے 15 سال میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں شروع کیے گئے سپیشل اکنامک زونز کی صورت حال کچھ یوں ہے۔
وسطی پنجاب میں سرگودھا شہر کے قریب شروع کیا گیا بھلوال انڈسٹریل اسٹیٹ کا منصوبہ جو کہ 427 ایکڑ پر مشتمل ہے، اس کے صرف سو ایکڑ پر 12 یونٹ ابھی تک مکمل ہوئے ہیں۔ ایم تھری انڈسٹریل سٹی یا فیصل آباد اکنامک زون کو پاکستان کا سب سے بڑا اکنامک زون کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا یہ تقریباً 34 سو ایکڑ پر مشتمل ہے تاہم ابھی اس کی تکمیل دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
بہاولپور انڈسٹریل زون جو کہ 483 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس سال کے دسمبر میں اس کا ڈیویلپمنٹ ورک مکمل ہو گا اور پھر اس کے کمرشل پلاٹوں کی سیل کا کام شروع ہو گا۔
شیخوپورہ میں موٹروے کے ساتھ شروع کیا جائے والا قائد اعظم بزنس پارک جو کہ 1860 ایکڑ مشتمل ہے گزشتہ دس سال سے ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔
رحیم یار خان کے انڈسٹریل زون کے لیے 456 ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی تاہم ابھی تک صرف 60 ایکڑ پر 9 یونٹ مکمل ہوئے ہیں۔ ایم فور موٹر وے پر ساہیاں والا انٹرچینج کے قریب تقریباً 32 سو ایکٹر پر شروع کیا جانے والا علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی ابھی تک اپنی میعاد سرکاری فائلوں میں ہی پوری کر رہا ہے۔
پاکستان خاص طور پر پنجاب حکومت 60 اور 70 کی دہائی کے بعد سپیشل اکنامک زون کیوں نہ بنا سکی؟ اس سوال پر ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں صاف ظاہر ہے کہ ملکی معیشت کا تعلق ہمیشہ سے اس ملک کو چلانے والی اشرافیہ کی ترجیحات کے مرہون منت ہوتا ہے۔ اگر ترجیح ہی ملک کی بہتری نہیں ہے تو پھر آپ جتنے مرضی منصوبے لے آئیں وہ آپ کو ایسے ہی دھول مٹی میں نظر آئیں گے۔
’پاکستان میں انڈسٹری کو بجلی کھا گئی ہے۔ پہلے بجلی تھی نہیں اور اب مہنگائی ہے اور پھر ڈالر کی اڑان۔ آپ نئے اکنامک زون میں کام کے تعطل پر بات کر رہے ہیں، یہ دیکھیں کہ پہلے سے موجود انڈسٹری کے ساتھ کیا ہوا؟‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب تک توانائی کے مسئلے کی پیش بندی ںہیں کی جاتی تب تک پاکستان میں کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ہماری ایڈ آن کی ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیشن شفٹ ہو چکی ہے۔ اس لیے اس ملک کو سرجری کی ضرورت ہے۔ پیناڈول سے یہ کینسر ٹھیک نہیں ہو گا۔‘
تاہم پنجاب کے وزیر برائے انڈسٹری چوہدری شافع کے دفتر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپیشل اکنامک زونز پر اب نئے سرے سے کام شروع ہو رہا ہے۔
’سی پیک کے تعطل کی وجہ سے بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اسی طرح بجلی کے بحران نے بھی اپنی کثر پوری کی ہے۔ اب موجودہ حکومت بہت تیزی کے ساتھ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کر یہ کام پورے کرے گی۔ اگلے پانچ سالوں میں نہ صرف ملک میں انڈسٹری لگے گی بلکہ دیگر مسائل بھی حل ہوں گے۔‘