Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل نے ایران کی میزائل تنصیبات اور جوہری تجربات کی سابق عمارتوں کو نشانہ بنایا، سیٹلائٹ تصاویر

اسرائیل کے مطابق بلسٹک میزائل کے لیے ٹھوس ایندھن کی مکسنگ کے لیے استعمال ہونے والی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ فوٹو: اے۔ ایف پی
امریکی ریسرچرز نے کہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی فضائی حملے میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر کام کیا جاتا رہا ہے جبکہ ایک اور عمارت بھی متاثر ہوئی ہے جہاں میزائل کی تیاری کے لیے ٹھوس ایندھن کی مکسنگ کا کام کیا جاتا تھا۔ 
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ سے وابستہ ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر ڈیوڈ البرائٹ اور واشنگٹن کے سی این اے نامی تھنک ٹینک میں کام کرنے والے ریسرچر ڈیکر ایویلتھ نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کا جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیل نے تہران کے قریب پارچین میں قائم ایک بڑے ملٹری کمپلیکس میں عمارتوں پر حملہ کیا ہے جبکہ دارالحکومت کے قریب واقع خجیر کے مقام کو بھی نشانہ بنایا ہے جہاں میزائل تیار کرنے والی بڑی فیکٹری واقع  ہے۔
روئٹرز نے جولائی میں رپورٹ کیا تھا کہ خجیر کو بڑے پیمانے پر وسیع کیا جا رہا ہے۔
ڈیکر ایویلتھ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے ایران کی بڑے پیمانے پر میزائل تیار کرنے کی صلاحیت ممکنہ طور پر متاثر ہوئی ہوگی۔
اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ جنگی طیاروں نے تہران کے قریب اور مغربی ایران میں میزائل فیکٹریوں اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
جبکہ ایران کی فوج کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے صوبہ ایلام اور خوزستان سمیت تہران کے قریبی علاقوں میں سرحدی ریڈار سسٹم کو نشانہ بنانے کے لیے ’بہت ہلکے وار ہیڈز‘ کا استعمال کیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ڈیوڈ البرائٹ نے لکھا کہ کمرشل سیٹلائٹ امیجری سے ظاہر ہے کہ اسرائیل نے پارچین میں ’طالقان ٹو‘ نامی عمارت پر حملہ کیا ہے جو جوہری پروگرام ’عماد پلان‘ کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجسنی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے اس پروگرام کو 2003 میں بند کر دیا تھا۔

اسرائیل نے تہران کے قریب مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈیوڈ البرائٹ نے روئٹرز کو بتایا سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہے کہ اسرائیل نے طلقان ٹو سے 320 میٹر دور واقع تین عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے جن میں سے دو میں بیلسٹک میزائل کی تیاری کے لیے ٹھوس ایندھن کی مکسنگ کا کام کیا جاتا تھا۔
ایکس پر البرائٹ نے لکھا کہ ایران نے طلقان ٹو میں تجربات میں استعمال ہونے والا اہم سامان رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شاید حملے سے پہلے ایران نے اہم سامان وہاں سے ہٹا لیا ہو تاہم جوہری ہتھیاروں سے جڑی کارروائیوں کے لیے یہ عمارت اہمیت کی حامل ہے۔
جبکہ ڈیکر اویلیتھ نے بتایا کہ پارچین کے سیٹ لائٹ امیجز میں نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل نے اس وسیع کمپلیکس میں بیلسٹک میزائل کے لیے ٹھوس ایندھن کی مکسنگ کے کام کے لیے استعمال ہونے والی تین عمارتوں اور ایک گودام کو نشانہ بنایا ہے۔
ڈیکر اویلیتھ نے یہ بھی کہا کہ امیج سے ظاہر ہے کہ خجیر کمپلیکس میں واقع دو عمارتیں اسرائیلی حملے میں تباہ ہوئی ہیں جہاں بیلسٹک میزائل کے لیے ٹھوس ایندھن کی مکسنگ کی جاتی تھی۔
اویلیتھ کے مطابق ’اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے ان عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں ٹھوس ایندھن مکسرز رکھے ہوئے تھے۔ ان انڈسٹریل مکسرز کو تیار کرنا مشکل کام ہے اور ان کی برآمد کو بھی کنٹرول کیا گیا ہے۔ ایران کئی سالوں میں اور بھاری خرچ پر متعدد مکسرز درآمد کر چکا ہے اور ان کی جگہ مزید منگوانے میں مشکل ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ محدود آپریشن کے ساتھ اسرائیل نے ممکنہ طور پر ایران کی بڑے پیمانے پر میزائل تیار کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں اس نوعیت کا ایرانی میزائل حملہ شاید مشکل ہو جو اسرائیلی دفاعی نظام کے باوجود حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ میزائل ایران کے پاس ہیں جو تہران نے یوکرین کے خلاف استعمال کے لیے روس کو، یمن میں حوثیوں اور لبنان کے حزب اللہ ملیشیا کو دیے تھے۔

شیئر: