Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو عمران خان کی رہائی سے کیوں جوڑا گیا؟ آغاز سے اختتام تک کی کہانی

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 270 سے زائد ووٹ حاصل کر کے تاریخی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اب تک کے نتائج سے واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی امریکہ کے اگلے صدر منتخب ہوں گے جس کا فیصلہ اگلے ماہ دسمبر میں ہونا ہے۔
مختلف سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر جہاں دنیا بھر میں ٹرمپ کے حامی خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہیں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بھی کافی مسرور نظر آتے ہیں۔
بدھ کے روز مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر مختلف اکاؤنٹس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ردعمل سامنے آ رہا ہے جن میں اکثریت کی تعداد پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کی ہے۔
شازیہ نامی ایک صارف نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک پرانی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’ٹرمپ کو مبارکباد۔ اب ہمارے باس عمران خان کو جیل سے نکالنے کا وقت ہے۔

پاکستان میں ایکس پر پوسٹس کی بڑی تعداد موجود ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد تو دے رہی ہے لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا ذکر بھی کر رہی ہے۔

ایک اور پوسٹ میں عاصم اعظم نامی صارف ایلون مسک کو ٹویٹ میں جواب دیتے نظر آئے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’آپ ڈونلڈ ٹرمپ کے کافی قریب ہیں، عمران خان کو جیل سے رہا کروانا مت بھولیے گا۔

متعدد صارفین عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پرانی ویڈیوز بھی شیئر کر رہے ہیں جس میں وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان اور ٹرمپ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ 

کچھ صارفین کا ردعمل تھوڑا مختلف دکھائی دیا، جیسے عادل چودھری لکھ رہے ہیں ’یہ بیک وقت مضحکہ خیز اور افسوس ناک ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی ٹرمپ کی جیت پر ایسے جشن منا رہے ہیں جیسے ٹرمپ پاکستان آئیں گے اور کہیں گے عمران خان آپ آزاد ہیں۔

پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’امریکہ نے نکالا تھا، امریکہ ہی نکالے گا۔‘ اس پوسٹ سے مطیع اللہ جان اس الزام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی ہے، اور اب پی ٹی آئی کے ہی حامی امریکہ سے عمران خان کی رہائی کی امید لگا رہے ہیں۔

مذکورہ پوسٹ کے جواب میں نعمان فیروز نامی صارف نے لکھا ’اب ٹرمپ ہی عمران خان کو آزاد کروائے گا اور پھر عمران خان ہمیں امریکہ سے آزاد کروائے گا۔
پاکستان کے ہی ایک اور صحافی رؤف کلاسرا نے ایکس پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں علیمہ خان سے ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی رہائی سے متعلق سوال کیا جا رہا ہے کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟

ویڈیو میں علیمہ خان جواب دیتے ہوئے کہہ رہی ہیں ’یہ بات تو وہیں آگئی کہ ہم غلام ہیں، کیا ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کالونی ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ اگر امریکہ کا نیا صدر ہے تو ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنی عزت کا خیال کرنا چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کیا رائے رکھتی ہے؟

واضح رہے پاکستان میں گذشتہ کئی ماہ سے تبصرے ہو رہے ہیں کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد عمران خان کی رہائی کے امکانات بڑھ جائیں گے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی رہنما بھی اس بارے میں کھل کر کہتے رہے ہیں کہ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد پاکستانی حکومت کو عمران خان کو چھوڑنا پڑے گا۔
تاہم بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخاب میں دوسری بار کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے رہنما اگرچہ اس خبر پر مسرور ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ عمران خان کی رہائی کا راستہ پاکستان سے ہی نکلے گا نہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دفتر سے۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے  کہا کہ اگرچہ صدر ٹرمپ اور پاکستان کے اس وقت وزیراعظم عمران خان کی باہمی کیمسٹری بہت اچھی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی ان کے دوسری مرتبہ صدر بننے کے بعد عمران خان کی جیل سے رہائی کے لئے ان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ پاکستانی عدالتوں میں ہونا ہے اور وہ اسی وقت رہا ہوں گے جب عدالتوں سے انہیں انصاف ملے گا اور پاکستان کے اندر حالات ان کے لیے سازگار ہوں گے۔
ٹرمپ کے صدر بننے یا امریکی انتظامیہ میں تبدیلی آنے کا عمل ایک طرف لیکن عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان کے اندرونی حالات ہمارے حق میں ہونا ضروری ہے اور اسی لیے ہم عدالتوں میں بھرپور قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

آخر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو عمران خان کی رہائی سے کیوں جوڑا گیا؟

حالیہ دنوں میں جہاں امریکہ کے صدارتی امیدوار الیکشن کے لیے اپنی مہم چلا رہے تھے وہیں پاکستانی سوشل میڈیا پر سیاسی تجزیوں اور مباحثوں میں ایک ہی سوال گردش کرتا رہا کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پاکستان بالخصوص عمران خان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
اگر اس سوال کی جڑ تک پہنچا جائے تو یہاں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا اردو نیوز کو مئی 2024 میں دیے گئے انٹرویو کا ذکر اہم  ہے۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین نے عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا تھا کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس معاملے پر امریکہ سے کال آئے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اِس سے پہلے ہی سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے۔
مشاہد حسین نے کہا ’امریکہ میں 5 نومبر کو صدارتی الیکشن ہے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے اور پھر ایک کال آئے وہاں سے تو کال سے پہلے آپ خود فیصلے کر لیں۔
ان کے مطابق ’اقتصادی استحکام کا سیاسی استحکام کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ اُن کو الگ نہیں کر سکتے۔ اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے تو سب کو دل بڑا کرنا پڑے گا، اور دماغ کو وسیع کرنا پڑے گا۔
مشاہد حسین کا یہ انٹرویو پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی حلقوں میں کافی مقبول ہوا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی کے حامی مشاہد حسین کے بیان کی بھی حمایت کرتے دکھائی دیے۔

کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ کمپین میں عمران خان کا ذکر کیا؟

سوشل میڈیا پر اکثر صارفین یہ بھی دعویٰ کرتے نظر آئے کہ عمران خان کو پاکستانی امریکیوں اور مسلمانوں نے اس لیے ووٹ دیا کہ انہوں نے اپنی الیکشن کمپین میں عمران خان کو رہا کروانے کا وعدہ کیا تھا۔
سوشل میڈیا صارف فرید خان نے یہی دعویٰ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان کو رہا کروانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
اگر توجہ سے اس ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہونٹوں کی جنبش دیکھی اور ان کی آواز سنی جائے تو وہ آپس میں مطابقت نہیں رکھتے، تاہم یہ ایک مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آواز ہے جسے ٹرمپ کی پرانی ویڈیو کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
ویب سائٹ فارن پالیسی کے نامہ نگار مائیکل کوگلمین نے حال ہی میں اپنے تجزیہ میں وضاحت دی ہے کہ جیل میں قید سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ خان کی حالت زار پر توجہ دلانے کے لیے کچھ پوسٹ کرنے کا وقت نکالیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
مائیکل کوگلمین نے لکھا کہ ’ٹرمپ نے کہیں سوشل میڈیا پر عمران خان کا ذکر کیا اور نہ ہی یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملک ’مجموعی طور پر افراتفری کی حالت میں ہے۔ ٹرمپ نے انڈیا کے ساتھ امریکی شراکت داری کی بھی تعریف کی۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’خان کے حامیوں میں سے بہت سے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ دوسری مدت کے لیے عمران خان کی وکالت میں دلچسپی لیں گے۔ جب ٹرمپ  صدر تھے، انہوں نے عمران خان (اس وقت کے وزیراعظم) سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات بھی کی تھی اور انہیں اچھا دوست کہا تھا۔
انہوں نے اپنے کالم میں وضاحت کی کہ ’عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مصروفیات ممکنہ طور پر حقیقی دوستی کی وجہ سے کم اور ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی انخلا کے عمل کو شروع کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں مدد فراہم کرنے کی خواہش کی وجہ سے زیادہ تھیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ٹرمپ کی اپنی انتخابی مہم کے دوران خان پر خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ سابق وزیر اعظم — اور زیادہ وسیع طور پر پاکستان — ممکنہ طور پر ان کی ترجیحات کی فہرست میں نہیں ہوں گے‘۔

شیئر: