Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرار الحق مجاز: اُردو کے کِیٹس جنہیں ’ترقی پسند بھیڑیے‘ اٹھا لے گئے

جوش ملیح آبادی نے ’یادوں کی برات‘ میں مجاز کے بارے میں لکھا ہے کہ مجازؔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ (فوٹو: ویکی پیڈیا)
’اردو میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا جسے ترقی پسند بھیڑیے اٹھا کر لے گئے‘
یہ دلچسپ جملہ اردو کے معروف شاعر اسرارالحق مجاز کے بارے میں ہے جو ان کے ہمعصر لیکن بزرگ شاعر اثر لکھنوی نے ان کی جواں مرگی پر کہا تھا۔
مجاز جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانے ’یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں‘ کے لیے مشہور ہیں وہیں وہ اپنی رومانوی اور ترقی پسند شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی بذلہ سنجی کے لیے بھی مشہور ہیں۔
مجاز نے جتنے کلام چھوڑے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان کے قصے ہیں۔ کچھ قصے تو انھوں نے خود بیان کیے ہیں اور کچھ لوگوں نے بنا لیے ہیں۔
میرے دادا بتایا کرتے تھے کہ جب مجاز کانپور آتے تھے تو کس طرح محفل سجتی تھی اور رات بھر شعروسخن کی مجلس گرم رہتی تھی۔ اور مجاز کو بھی اس کا احساس تھا۔ چنانچہ انہوں نے خود ایک شعر میں اس کا اعتراف کیا ہے:
ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجاز
تو وہ آواز شکست ساز ہے
مجاز شعروسخن اور نوابوں کے شہر لکھنئو کے قریب فیض آباد ضلع کے رودولی گاؤں میں 19 اکتوبر 1911 کو ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے انہیں سماعت کی شکایت تھی اور شاید اسی وجہ سے وہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رات بھر جاگتے تھے اور دن چڑھنے تک سوتے تھے اور اسی مناسبت سے ان کا نام جگن بھیّا پڑ گیا تھا۔
مجاز جس زمانے میں شاعری کے میدان میں اترے وہ زمانہ اردو شاعری میں نئے آہنگ کا زمانہ تھا اور ترقی پسند تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ چنانچہ ان کے پہلے مجموعے کا نام بھی آہنگ ہے۔
انہوں نے اپنے اس مجموعے کو معروف شاعر فیض احمد فیض اور معین احسن جذبی کے نام منسوب کیا ہے اور انہیں اپنا ’دل و جگر‘ کہا ہے جبکہ علی سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کو انہوں نے اپنا ’دست و بازو‘ کہا ہے۔
مجاز نے ابتدائی تعلیم آگرے سے حاصل کی کیونکہ ان کے والد کا وہاں تبادلہ ہو گیا تھا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے آئے جہاں ان کا تعارف ترقی پسند ادبا اور شعرا سے ہوا۔
ایم اے کو ادھورا چھوڑ کر وہ دہلی چلے آئے جو انہیں راس نہیں آئی اور پھر وہ بمبئی (آج ممبئی) چلے گئے لیکن پھر وہ لکھنؤ واپس آ گئے۔
ان کی نظم ’آوارہ‘ بے انتہا مشہور ہوئی اور اس کی بہت جگہ پیشکش بھی کی گئی ہے۔ ان کے وقت میں ان کی اس نظم سے زیادہ شاید ہی کوئی اور نظم مشہور رہی ہو اور اردو ادب کا شاید ہی کوئی نصاب ہو جس میں آج یہ نظم شامل نہ ہو۔

عصمت چغتائی کے مطابق علی گڑھ ہاسٹل کی لڑکیاں مجاز کے لیے آپس میں قرعہ اندازی کرتی تھیں۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

اردو کی ویب سائٹ ریختہ پر مجاز کی کلیات کے تحت لکھا ہے کہ ’اسرارالحق مجازؔ 20 ویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر اک وقوعہ یا 'فینامین‘ بن کر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی دلنواز شخصیت اور اپنے لب و لہجہ کی تازگی اور غنائیت کے سبب اپنے وقت کے نوجوانوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔‘
'فیض احمد فیض، سردار جعفری، مخدوم محی الدین جذبی اور ساحر لدھیانوی  جیسے شعراء ان کے ہمعصر ہی نہیں ہم پیالہ اور ہم نوالہ دوست بھی تھے۔ لیکن جس زمانہ میں مجازؔ کی شاعری اپنے شباب پر تھی،ان کی شہرت اور مقبولیت کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔‘
عصمت چغتائی کے مطابق علی گڑھ ہاسٹل کی لڑکیاں ان کے لیے آپس میں قرعہ اندازی کرتی تھیں اور ان کے مجموعہ کلام ’آہنگ‘ کو سینے سے لگا کر سوتی تھیں۔
میرے دادا بتاتے ہیں کہ وہ بلانوش تھے یہاں تک کہ ان پر دیوانگی یا پاگل پن کے کئی دورے پڑے۔ ان کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے انہیں رانچی بھی لے جایا گیا۔ ایک بار جب وہ علاج کے لیے ہسپتال میں داخل تھے تو ان کی ایک نرس سے دوستی ہو گئی جس کے لیے انہوں نے ایک طویل نظم ’نورا‘ لکھی جس کے آخری دو اشعار اس طرح ہیں:
نہیں جانتی ہے مرا نام تک وہ
مگر بھیج دیتی ہے پیغام تک وہ
یہ پیغام آتے ہی رہتے ہیں اکثر
کہ کس روز آؤ گے بیمار ہو کر
اسی طرح مجاز نے اپنا تعارف خود ایک نظم ’تعارف‘ میں کرایا ہے جس کے چند اشعار آپ بھی دیکھیں:
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنس الفت کا طلبگار ہوں میں
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
مجاز کے لطائف بھی بہت مشہور ہیں۔ ایک ادبی لطیفہ آپ بھی سنتے چلیے۔ ایک فلمی اخبار کے ایڈیٹر مجاز سے انٹرویو کے لیے مجاز کے ہوٹل پہنچ گئے۔ انہوں نے مجاز سے ان کے کوائف، تعلیم اور شاعری وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کرنے کے بعد دبی زبان میں پوچھا: ’میں نے سنا ہے کہ آپ بہت زیادہ پیتے ہیں؟
مجاز نے پلٹ کر کہا: ’کس نامعقول نے آپ سے یہ کہا کہ میں بہت زیادہ پیتا ہوں۔‘ تو ایڈیٹر نے پوچھا تو پھر آپ سگریٹ کثرت سے پیتے ہوں گے؟ مجاز نے کہا، نہیں میں سگریٹ بھی نہیں پیتا، مے نوشی اور سگریٹ نوشی دونوں ہی بری عادتیں ہیں اور میں ایسی کسی بری عادت کا شکار نہیں۔‘
ایڈیٹر نے سنجیدگی سے پوچھا، ’تو آپ میں کوئی بری عادت نہیں ہے؟ مجاز نے بھی اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا،  کہ مجھ میں صرف ایک ہی بری عادت ہے کہ میں جھوٹ بہت بولتا ہوں۔‘

جوش ملیح آبادی نے لکھا ہے کہ مجازؔ اردو شاعری میں ایک آندھی بن کر اٹھے تھے اور آندھیاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

جہاں تک مجاز اور کیٹس میں مماثلت کا سوال ہے تو حسن کا بیان دونوں کے یہاں ایک طرح کا نظر آتا ہے مجاز کے بعض اشعار تو کیٹس کے بعض اشعار کی ترجمانی کے بجائے ترجمہ لگتے ہیں۔
لیکن یہ خوش نوا ’اپنے چمن کا بلبل‘ اپنے چمن میں ہی بے یارو مددگار بے ہوش پڑا ملا۔
جوش ملیح آبادی نے ’یادوں کی برات‘ میں مجاز کے بارے میں لکھا ہے کہ مجازؔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن وہ اپنی صرف ایک چوتھائی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔
مجازؔ کی باقاعدہ موت تو 1955 میں ہوئی لیکن وہ  دیوانگی کے تین دوروں کو جھیلتے ہوئے اس سے کئی سال پہلے ہی مر چکے تھے۔ مجازؔ اردو شاعری میں ایک آندھی بن کر اٹھے تھے اور آندھیاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں۔‘
چار دسمبر کو لکھنئو کی جاڑے کی شب کو ایک کھلی چھت پر شعر و جام کی محفل گرم ہوئی۔ ایک ایک کرکے دوست رخصت ہوتے رہے، یہاں تک کہ کسی کو ہوش نہ رہا کہ مجاز وہاں تنہا چھوٹ گئے ہیں۔
جب صبح ہوئی تو چھت پر ہی وہ بے ہوش پڑے ملے۔ انھیں اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا انہیں برین ہیمرج اور نمونیا ہو گیا ہے اور پھر اگلے دن پانچ تاریخ کی رات کو ان کی ہسپتال میں ہی موت ہو گئی۔
مجاز کی وفات سے ادبی دنیا میں کہرام مچ گیا اور لکھنؤ میں سات دسمبر کو ان کا تعزیتی جلسہ ہوا جس میں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ شامل ہوئے۔
انہیں لکھنؤ میں ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور ان کے لوح تربت پر ان کا شعر کندہ ہے:
اب اس کے بعد صبح ہے اور صبح نو مجازؔ
ہم پر ہے ختم شام غریبان لکھنؤ

شیئر: