بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کرد جنگجوؤں کو دوہرے خطرے کا سامنا
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کرد جنگجوؤں کو دوہرے خطرے کا سامنا
جمعہ 20 دسمبر 2024 19:26
شام میں عسکریت پسندوں کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے ایک حصے کے طور پر امریکی فوجی بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
شمالی شام میں موجود کرد جنگجوؤں پر ترکیہ کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے جبکہ انہیں یہ بھی خدشات ہیں کہ ملک کے نئے حکمران ان کی بڑی مشکل سے حاصل کردہ خود مختاری کو ختم نہ کر دیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دہائیوں سے جبر کا شکار کردوں نے خانہ جنگی کے دوران بشار الاسد کی حکومت کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھایا، لیکن اب نئی حکومت آنے کے بعد وہ ایک پیچیدہ اور غیریقینی مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔
اسلام پسندوں کی زیرِقیادت عسکریت پسندوں نے صرف 12 دنوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا، جبکہ دوسری جانب ترکیہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے شمال میں کرد فورسز کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کر دیں۔
انہوں نے فوری طور پر ترک سرحد کے ساتھ 30 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے کردوں کے زیرِقبضہ دو اہم علاقوں تل رفعت اور منبج پر قبضہ کر لیا جہاں ترکیہ ایک نام نہاد ’سکیورٹی زون‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس لڑائی کے بعد 11 دسمبر کو امریکی ثالثی میں جنگ بندی ہوئی، حالانکہ کرد فورسز کا کہنا ہے کہ علاقے میں موجود ترک افواج اور ان کی پراکسیز نے اس (جنگ بندی) کا احترام نہیں کیا ہے۔
کرد جنگجو امریکہ کی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا بڑا حصہ ہیں جو سنہ 2015 میں تشکیل دی گئی تھی اور اسے کردوں کی فوج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایس ڈی ایف نے سنہ 2019 میں شام میں داعش کے عسکریت پسندوں کو شکست دی تھی اور اب بھی امریکہ اسے علاقے میں عسکریت پسندوں کی بحالی کو روکنے کے لیے ’اہم‘ قوت کے طور پر دیکھتا ہے۔
امریکہ نے کردوں کے زیرِقبضہ سرحدی شہر کوبانی، جسے عین العرب بھی کہا جاتا ہے، پر ممکنہ ترک حملے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ یہ شہر داعش کے خلاف لڑائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
منگل کو ایس ڈی ایف کے رہنما مظلوم عبدی نے امریکی نگرانی میں کوبانی میں ایک ’غیرفوجی زون‘ کے قیام کی تجویز پیش کی۔
پینٹاگون نے جمعرات کو کہا کہ شام میں عسکریت پسندوں کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے ایک حصے کے طور پر امریکی فوجی بھی موجود ہیں، جن کی تعداد رواں برس کے شروع میں دگنی ہو کر تقریباً دو ہزار ہو گئی ہے۔
ترکیہ کے حامی جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ، انقرہ کے شمالی شام میں 16 سے 18 ہزار کے درمیان فوجی موجود ہیں۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ اگر کرد جنگجو غیرمسلح نہیں ہوتے ہیں تو وہ ’فرات کے مشرق میں‘ تعیناتی کے لیے تیار ہیں۔
تاہم ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے بدھ کو کہا کہ اگر نئی حکومت ’اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے تو انقرہ کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ ترکیہ کرد فورسز کو سرحدی علاقے سے دور دھکیلنے کے لیے شام کی شورش کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اور انہیں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے ’دہشت گرد‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ پی کے کے نے کئی دہائیوں سے ترکیہ کی سرزمین پر شورش برپا کی ہوئی ہے۔