طاقت کے توازن میں تبدیلی، کیا شام میں کُرد گروپ ’بیک فُٹ‘ پر ہیں؟
آرون لُنڈ نے کہا کہ شامی کرد گروپ ’گہری مصیبت میں ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
شام کے شمال میں ترکیہ کے حمایت یافتہ مخالف گروہوں کے کردوں کے خلاف متحرک ہونے کے ساتھ اور دمشق میں انقرہ کے دوست گروپ کی حکومت کے قیام کے بعد شام کے اہم کرد دھڑے بیک فٹ پر ہیں، کیونکہ وہ 13 سال کی جنگ کے دوران حاصل کیے گئے سیاسی فوائد کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراق، ایران، ترکیہ، آرمینیا اور شام میں پھیلے ہوئے بے وطن کرد اب تک شامی تنازعے کے چند فاتحین میں شامل رہے ہیں، جو ملک کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر قابض ہیں اور ایک طاقتور مسلح گروپ کی قیادت کر رہے ہیں جو کہ امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔
لیکن دو تجزیہ کاروں اور ایک سینیئر مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ اس مہینے میں اسلام پسند گروپ ھیتہ التحریر الشام کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد سے طاقت کا توازن ان کے خلاف ہو گیا ہے۔
شام میں آنے والی تبدیلی سے ترکیہ کو اثر و رسوخ حاصل ہونے کی توقع ہے جس طرح امریکی انتظامیہ کی تبدیلی سے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ واشنگٹن کب تک ملک کی کرد زیرقیادت افواج کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔
ترکیہ کے لیے کرد دھڑے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انقرہ انہیں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے جو 1984 سے ترک ریاست کے خلاف بغاوت کر رہی ہے اور اسے ترکیہ، امریکہ اور دیگر طاقتیں ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتی ہیں۔
امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سینچری انٹرنیشنل کے فیلو آرون لنڈ نے کہا کہ شامی کرد گروپ ’گہری مصیبت میں ہیں۔ شام میں توازن بنیادی طور پر ترکیہ کے حمایت یافتہ یا ترکیہ سے منسلک دھڑوں کے فائدے میں بدل گیا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ترکیہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔‘
اس تبدیلی کی عکاسی شمال پر کنٹرول کے لیے نئی لڑائی میں ہوئی ہے جہاں ترکیہ کے حمایت یافتہ مسلح گروپ جنہیں سیریئن نیشنل آرمی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کردوں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف فوجی پیش قدمی کی ہے۔
کردوں کی زیرقیادت علاقائی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار فانر الکیت نے کہا کہ بشارالاسد کی معزولی نے بکھرے ہوئے ملک کو ایک ساتھ جوڑنے کا موقع فراہم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’انتظامیہ ترکیہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن شمال میں ہونے والے تنازع سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ کے ’بہت برے ارادے‘ تھے۔ یہ یقینی طور پر خطے کو ایک نئے تنازعے کی طرف دھکیل دے گا۔‘