اس ٹرائل کا نام ’ریکوری‘ یعنی صحتیابی رکھا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے کیے جانے والے دنیا کے سب سے بڑے تجربے کی نگرانی کر رہا ہے اور برطانیہ بھر کے 165 ہسپتالوں سے پانچ ہزار مریضوں نے رضاکارانہ طور پر اس تجربے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں جس کا نام ’ریکوری‘ یعنی صحتیابی رکھا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امید کی جا رہی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں برطانیہ میں ہونے والے اس تجربے کے نتائج چند ہفتوں میں سامنے آ جائیں گے، کیونکہ وہ ابھی ابتدائی سطح پر ہیں اور ان کے پاس زیادہ رضاکار بھی نہیں ہیں۔
اس مشن کی سربراہی وہ سائنسدان کر رہے ہیں جو اس سے قبل مغربی افریقہ میں آنے والی وبا ایبولا وائرس پر کام کر چکے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ابھرتی وبائی امراض اور گلوبل ہیلتھ کے پروفیسر پیٹر ہوربی نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا کہ اس ٹرائل سے کوئی ’جادوئی گولی‘ نہیں نکلے گی۔
تاہم انھوں نے کہا ’یہ اب تک دنیا میں ہونے والا سب سے بڑا تجربہ ہے۔ ہم جون میں اس کے نتائج کی امید کر رہے ہیں۔ اگر نتائج اچھے آتے ہیں، تو اس کا حل جلد مل جائے گا۔‘
اس تجربے میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاج کے لیے مددگار قرار دیا تھا،اور اینٹی بائیوٹک دوا ایزیتھرومائی سین کے علاوہ دیگر دواؤں کو استعمال کیا جائے گا۔
ان دو دواؤں کے ملاپ کو فرانسیسی ڈاکٹر دیدیر راؤلٹ نے تجویز کیا ہے اور فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے بھی ہچکچاتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔
تاہم ان دونوں دواؤں کو اکٹھا استعمال کرنے سے پہلے علیحدہ علیحدہ استعمال کر کے ان کی افادیت معلوم کی جائے گی۔
دیگر دواؤں میں اینٹی وائرل ڈرگ لوپیناویر، ریٹوناویر اور ایچ آئی وی مریضوں کے لیے بنائی گئی اینٹی انفلیمیٹری ڈرگ ڈیکسامیتھاسون کو بھی تجربے میں شامل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آرتھرائٹس کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا ایمونو موڈولیٹر اور کورونا کے صحت یات ہونے والے مریضوں کے حاصل شدہ پلازما سے بھی علاج کیا جائے گا۔
جیلیڈ کمپنی کی دوا ریمدیسیور کو اس ٹرائل میں شامل نہیں کیا جائے گا جس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ یہ پہلے ہی چین اور امریکہ میں کافی زیادہ تجویز کی جا رہی ہے۔
اس ٹرائل کے معاون سربراہ پروفیسر مارٹن لانڈرے کا کہنا ہے کہ اس تجربے کو شروع کرنے کی رفتار اور اس کا سکیل شاندار ہے۔
پروفیسر ہوربی کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت خطرناک وبا ہے جس کا علاج ممکن نہیں تو ایبولا وائرس کو دیکھیں جو اس سے زیادہ مہلک تھی۔‘