’مِہر‘ فارسی میں سورج کو کہتے ہیں (فوٹو: ان سپلیش)
ترے عاشق ترے کوچے کو تیری سرد مہری سے
کبھی کشمیر سمجھے تو کبھی کولمبیا سمجھے
کوچۂ جاناں کی سرحدیں ناپتا یہ شعر معروف مزاح گو شاعر ’بلبل کاشمیری‘ کا ہے۔ فکر معاش نے کشمیری شاعر کو لندن کا ’ناگرک‘ بنا دیا،
جہاں وہ لندن کے سرد موسم میں محبوب کی ’سرد مہری‘ پرشکوہ کناں ہیں۔
’سرد مہری‘ کو ہم ایک مدت تک ’سرد مُہری‘ پڑھتے رہے۔ پھر ایک روز منکشف ہوا کہ درست لفظ میم کے زیر کے ساتھ ’سرد مِہری‘ ہے۔ اس وقت تک ہمارے مطالعے میں ’مِہر‘ کا مطلب فقط ’سورج‘ تھا یوں ہم نے سورج کی رعایت سے ’سرد مِہری‘ کے لفظی معنی خود ہی وضع کر لیے۔
’بلبل کاشمیری‘ کی طرح لندن جا بسنے والے اشتیاق لودھی نے دورانِ گفتگو لفظ ’سرد مِہری‘ استعمال کیا تو ہم نے جھٹ اس کے معنی پوچھ لیے۔ سوال اچانک تھا اس لیے وہ گڑبڑا گئے۔ بولے سوال آپ نے پوچھا ہے تو معنی بھی آپ ہی بتا دیں۔
اس وقت ہمیں اپنی علمیت جھاڑنے کا موقع ملا۔ ہم نے کہا ’مِہر‘ فارسی میں سورج کو کہتے ہیں، چوں کہ سرما کی شدت میں سورج کی حدت کم ہوجاتی ہے اس لیے مجازاً ایسے تعلقات جن میں گرمجوشی جاتی رہے ’سرد مِہری‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔
یہ راز بعد میں کُھلا کہ ’سرد مِہری‘ کا ’مِہر‘ ہے تو فارسی سے متعلق مگر یہاں اس کے معنی ’سورج‘ کے نہیں بلکہ پیار، محبت ، الفت اور چاہت کے ہیں۔ یوں ’سرد مِہری‘ کے لفظی معنی ’ٹھنڈی محبت‘ اور اصطلاحی معنی ’بے رُخی و بے مروتی‘ ہیں۔ کہتے ہیں جب محبت کا ولولہ باقی نہ رہے تو تعلقات سرد پڑ جاتے ہیں۔ ایسے ہی سرد رویے کے بارے میں انور مسعود صاحب کا کہنا ہے:
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
خیر ایک روز ہم نے موقع دیکھ کر لودھی صاحب پر واضح کردیا کہ ’ٹھنڈے سورج‘ والی بات ’تحقیق مزید‘ کے بعد درست ثابت نہیں ہوئی اور یہ کہ تحقیق و جستجو کے باب میں کوئی بات بھی حتمی نہیں ہوتی، وغیرہ وغیرہ۔ انہیں ہماری یہ بات بھی ماننا پڑی کہ ’واقعہ سخت ہے اور جان عزیز‘۔
ایک ’مہر‘ عربی زبان میں بھی ہے۔ یہ میم کے زبر کے ساتھ ’مَہر‘ ہے۔ اصطلاح میں ’مَہر‘ وہ رقم ہوتی ہے جو دُلہا حقِ زوجیت کے طور پر دُلہن کو ادا کرتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں نکاح کے موقع پر اکثر یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں ’مہر مُعجل ہے یا غیر مُعجل؟‘۔ اس جملے میں ’غیر مُعجل‘ نا درست لفظ ہے اس کے مقابل درست لفظ ’موَجل‘ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مہر’مُعَجَّل‘ اوردوسرا ’مُوَجَّل‘ ہوتا ہے۔ اس میں پہلے کے معنی ’ فوراً، پیشگی اور ہاتھ کے ہاتھ‘ اور دوسرے کے معنی ’ملتوی اور مؤخر‘ ہیں۔ یعنی وہ مہر جو نکاح کے فوراً بعد ادا کردیا جائے ’مُعجل‘ اور جو کسی بھی وجہ سے مؤخر و ملتوی کردیا جائے ’موَجل‘ کہلاتا ہے۔
’معجل‘ کا بنیادی لفظ ’عجل‘ ہے۔ اسی سے ایک لفظ ’عاجلہ‘ ہے، اس کے معنی نہ بھی پتا ہوں تو بھی ہم بیماری پرسی کے وقت دعا ضرور دیتے ہیں ’ اللہ پاک صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے‘۔ اس جملے میں ’صحت کاملہ و عاجلہ‘ کے معنی ’مکمل اور فوری صحت یابی‘ کے ہیں۔
اردو میں اسی سلسلہ کا ایک لفظ ’عُجلت‘ بھی ہے، جو جلدی، پھرتی اور شتابی کے معنی لیے ہوئے ہے۔ محترمہ یاسمین حمید کا شعر ہے:
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
خیر دیواریں اُٹھانا اور ڈھانا مستری مزدوروں کا کام ہے، ہمیں اس باب میں فقط اتنا معلوم ہے کہ ’مزدور کو مزدوری اُس کا پسینا خشک ہونے سے پہلے ادا کردینی چاہیے۔‘ ویسے پسینا مزدوری ہی سے مشروط نہیں سورج نامہربان ہونے پربھی پسینا بہہ نکلتا ہے۔ سورج کی بے پناہ حرارت زمین پر زندگی کی ضمانت ہے، اس لیے قدیم تہذیبوں میں اسے دیوی اور دیوتا بھی منا گیا ہے۔ فی الحال ہم اس کے کام سے نہیں نام سے بحث کریں گے۔
’سورج‘ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی اصل سنسکرت کا ’سور‘ اور’سوریا‘ ہے۔ اس کے علاوہ بھی سنسکرت میں سورج کے درجنوں صفاتی نام ہیں۔
ان میں سے ایک نام ادتیا (AdityA) ہے۔ ہفتے کے دنوں میں سے ایک ’اتوار‘ کا پہلا جُز اسی ’ادتیا‘ سے متعلق ہے۔ اس میں ’ات‘ کے معنی سورج اور ’وار‘ کا مطلب دن ہیں، یوں یہ لفظ بہ لفظ انگریزی’Sunday‘ کا ہندی مترادف ہے۔ سنسکرت ہی میں سورج کا ایک نام سیؤن (syona / स्योन) بھی ہے۔ ذرا غور کرنے پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سیؤن / syona انگریزی sun کی اصل ہے۔ اس کے علاوہ سنسکرتی syona ولندیزی میں zon اور جرمن زبان میں Sonne کی صورت میں کرنیں بکھیر رہا ہے۔
صوتی تبادل کے مطابق بعض صورتوں میں ’س‘ حرف ’ہ /ھ ‘ سے بدل جاتا ہے۔ جیسے سنسکرت کا سپت (سات) فارسی میں ’ہفت‘ ہے یا سندھو سے ہندو ہے۔ تبدیلی کی اسی اصول کے تحت سنسکرت کا سور (sura / सुर) فارسی مین ’ھور‘ ہوگیا۔ پھر ’ھ‘ حرف ’خ ‘ سے بدلنے پراس ’ھور‘ نے ’خور‘ کی صورت اختیار کرلی۔ اسے آپ میرزا غالب کے مشہور شعر میں دیکھ سکتے ہیں:
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
پھر اس ’خور‘ میں شید (کرنیں) کا اضافہ کرکے ترکیب ’خورشید‘ بنالی گئی جو بعد میں سورج کا مترادف بن گئی۔ فارسی ہی میں سورج کو ’مِہر‘ بھی کہتے ہیں اسی سے ترکیب ’مہرِ عالم تاب‘ ہے۔ فارسی میں اس کا ایک نام ’آفتاب‘ بھی ہے۔ استاد کے مطابق اس ’آفتاب‘ کی اصل ’آفتِ آب‘ ہے۔ چوں کہ سورج کی تمازت پانی کے لیے فنا کا حکم رکھتی ہے اس لیے اسے ’آفتِ آب‘ پکارا گیا۔
یوں تو بات دل کو لگتی ہے مگر ایک اوراستاد کے مطابق ’آفتاب‘
کی اصل ’آب و تاب‘ یعنی ’چمک دمک‘ ہے۔ کثرت استعمال نے اس ’آب و تاب‘ کو ’آفتاب‘ بنا دیا ہے۔ اب آفتاب کی رعایت سے ایک گم نام شاعر کا ضرب المثل شعر ملاحظہ کریں:
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
چوں کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لیے اجازت چاہنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ فارسی میں سورج کو مجازاً نانِ روشن، نانِ زریں اور نانِ آتشیں بھی کہتے ہیں۔ عربی میں سورج کو کیا کہتے اور کیوں کہتے ہیں یہ ذکر کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔