Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرد راتوں میں سعودیوں کا بہترین دوست 'فروا'

انتہائی قیمتی اور روایتی ملبوسات میں سے ایک بدوی کوٹ ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں  سردیوں کے انتہائی قیمتی اور روایتی ملبوسات میں سے ایک بدوی کوٹ فروا ہے۔ اسے سعودی سرد راتوں میں اپنا دوست سمجھتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جیسے جیسے موسم سرما  کا آغاز ہوتا ہے تو لوگ  گرمیوں کے نرم و نازک ملبوسات سمیٹنا  شروع کر دیتے ہیں اور سویٹرز و دیگر گرم ملبوسات پر توجہ مرکوز کر دی جاتی ہے۔
فروا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا آغاز شام کےعلاقوں سے ہوا جہاں بدو انہیں موسم سرما کے مہینوں میں زیب تن کیا کرتے تھے۔

فر کے استر والے یہ طویل کوٹ آج خلیج کے تمام ممالک میں اپنی مقبولیت کی پختہ بنیاد قائم کر چکے ہیں۔
خاص طور پر یہ شمالی اور وسطی سعودی عرب  کے گھرانوں میں بے حد مقبول ہیں جہاں ریگستان کی کاٹنے والی سردی کے باعث درجہ حرارت حیران کن حد تک گر جاتا ہے۔
ایسے فرواجن کی تیاری میں سستا خام مال استعمال کیاگیا ہو، ان کی قیمت کم ہوتی ہے جبکہ قیمتی خام مال سے تیار شدہ فروا کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
فروا کی ایک قسم وہ ہے جس میں اندرونی جانب مصنوعی فرلگی ہوتی ہے اور اس پر لینن کا حفاظتی استر ہوتا ہے۔ بعض فروا میں لینن کی جگہ مخمل یا پھر سوتی کپڑا لگایا جاتا ہے۔

ان کی قیمت بھی اسی حساب سے ہوتی ہے۔ ان کی جگہ اگر فروا میں حقیقی فر یا ہاتھوں سے رنگی ہوئی بھیڑ کی اون استعمال کی گئی ہو تو اس کی قیمت 250 ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
طریف کے رہائشی احمد الشریف نے بتایا ہے کہ ایک ایسے قصبہ جہاں سردی کے موسم میں درجہ حرارت منفی 5 سیلسیئس تک گر جاتا ہو، وہاں گھروں میں فروا ناگزیر پہناوا شمار کیا جاتا ہے۔
موسم سرما کے دوران شہروں میں لوگ گھروں کے اندر اور باہر فروا  کا استعمال کرتے ہیں۔ بدو جو شہرسے باہر کے علاقوں میں  رہائش رکھتے ہیں، ان کے لئے فروا محض ضرورت سے بھی زیادہ ناگزیر ہے۔

الشریف نے بتایا ہے کہ حقیقی اور اصلی  فر والے فروا کو  پرتعیش لباس تصور کیاجاتا ہے۔
بدو اپنے دوستوں اور پیاروں کو انتہائی مقبول تحائف پیش کرتے ہیں۔ ان کی محبوب اقسام میں ”قراقل“ شامل ہے۔ یہ انتہائی نرم لمس اور کم وزن کی وجہ سے انتہائی مہنگا ہوتا ہے جو بھیڑ کے کھال سے بنایا جاتا ہے جسے براڈ ٹیل کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پرشین فروا سستا ہوتا ہے جس میں گھنا پن زیادہ نہیں ہوتا۔
دیگر اقسام میں عراقی فروا یا ”موصلیہ عراقیہ“ شامل ہے جس کی ابتدا شمالی عراق سے ہوئی تھی۔ اس قسم کے فروا انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔
ان کی قیمت 1000 ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ہاتھ سے کڑھائی کئے گئے شامی فروا 400 ڈالر میں دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کی تیاری میں 2 ہفتے لگ سکتے ہیں۔

ریاض سے تعلق رکھنے والے کالج کے ایک طالبعلم فیصل الثنیان نے کہا کہ موسم سرما میں میرا پسندیدہ مشغلہ فروا کی کلیکشن کی نمائش کرنا ہے۔
فیصل نے بتایا کہ میں اور میرے دوست کیمپنگ کے بہت شوقین ہیں۔ سردیوں میں ہم عموماً ہر ہفتہ ہی روایتی سعودی کیمپنگ ٹرپ”کشتہ“پر جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آگ کے گرد بیٹھ کر سردی کو بھگانا، شعلوں پر برگرز اور کباب تیار کرنا اور ”فر“ میں اپنے آپ کو لپیٹنا میرے لئے ایسا ہے جیسے میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا۔
 
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں عمومی طور پر موسم سرما  بہت مختصر ہوتا ہے اس لئے میں اس کے ہر ہر لمحے سے محظوظ ہوتا ہوں۔
الثنیان نے کہا کہ صحرا کی سردی آپ کی زندگی کے  مشکل ترین تجربات میں سے ہوتی ہے کیونکہ یہ  سردی بہت ہی خشک ہوتی ہے۔
اس قسم کی سردی  آپ کو اپنے جسم کی ہڈیوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ایسے لمحات میں فروا آپ کے لئے بڑے سکون کا باعث بنتا ہے۔
آج کل شہروں کے باسیوں نے بھی فروا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اس لئے ڈیزائنرز بھی اس کی تیاری میں اپنے تجربات شامل کر رہے ہیں۔ وہ اس میں چمڑے، کپڑے، زیورات  وغیرہ کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ وہ فروا جو بظاہر روایتی دکھائی دیتا ہے، جو سیاہ یا بھوری رنگت کا ہوتا ہے، جس میں بہت کم سجاوٹی اشیا ہوتی ہیں۔
 
اب انتہائی جدید اورحیران کن انداز میں مردوں اور خواتین کے لئے تمام تر طمطراق کے ساتھ مقبول ہو گیا ہے۔ چمکیلے رنگوں، نازک تراش خراش  اور سجاوٹ کے ساتھ، قدرے مختصر اور جیکٹ نما فرواثقافت کے مرکزی دھارے میں اپنا اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
سعودی عبایہ ڈیزائنرحنا ابو سعید نے کہا کہ نے کہا کہ فروا ایک ایسی شے ہے جس کی ڈیزائننگ مجھے بہت پسند ہے۔
اس کی ڈیزائننگ میں آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اس میں چیلنج یہی ہے کہ نہ صرف فروا آپ کو سردی سے بچانے والا ہو بلکہ انتہائی خوبصورت دکھائی دے رہا ہو۔
انہوں نے کہا کہ موسم سرما میں بعض خواتین عبایہ کی بجائے فروا پہننا ہی پسند کرتی ہیں۔
 
 

شیئر: