Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہری شہریت کے برطانوی سکالر کا ایران کے پہاڑی راستے سے پیدل فرار

کامل احمدی نے اپنے سفر کو طویل، تاریک اور بہت خوفناک قرار دیا۔ (فوٹو ٹوئٹر)
ایک برطانوی، ایرانی ماہر تعلیم ایران کی عدالت کی جانب سے برطانوی حکومت سے تعاون کا مجرم قرار دیئے جانے کے بعد پہاڑی راستے سے پیدل ہی ایران سے برطانیہ فرارہوگیا۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کامل احمدی، جو سوشل سائنسز کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ گئے تھے، انہیں دسمبر میں ایران میں9 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
عدالت نے سزا کے خلاف ان کی اپیل غیرحاضری کے باعث مسترد کر دی تھی۔ برطانیہ میں کامل احمدی نے برطانوی شہریت کے لئے درخواست دی۔ اس کے بعد وہ’’انسانیات‘‘ میں اپنے کریئر کو جاری رکھنے کے لئے ایران واپس آئے۔

مجھےایسا شخص بنانے کی کوشش کی گئی جسے برطانیہ نے ایران بھیجا ہو۔(فوٹو فیس بک)

انہوں نے جوان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، خاص طور پر جبری شادی اور ان کی ختنہ جیسے معاملات پر توجہ مرکوزکی۔ انہوں نے ایران میں شادی کی قانونی عمر جو اس وقت 13سال ہے،اس میں اضافے کے لئے مہم چلائی جس کے باعث وہ اسلامی انقلابی گارڈ کور ’’آئی آر جی سی ‘‘کی نظروں میں آگئے۔
اگست 2019 میں انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ ضمانت کے بعد اپیل کے التوا کے دوران انہوں نے بہت زیادہ برف اور شدید دھند میں، سمگلروں کے زیر استعمال خطرناک پہاڑی راستوں سے فرار کا فیصلہ کیا۔
کامل احمدی نے بتایا ہے کہ  میں نسلی لحاظ سے کرد ہوں اور کچھ راستوں کو جانتا ہوں لیکن یہ سفربہت خطرناک تھا، مجھے کئی بار کوشش کرنی پڑی۔ میں نے ایران سے نکلنے کے لئے خود کو سمگل کیا۔

ایران میں شادی کی قانونی عمر 13سال میں اضافے کے لئے مہم چلائی۔(فوٹو عرب نیوز)

مجھے لگتا تھا کہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ کامل احمدی نے اپنے سفر کو بہت طویل، بہت تاریک اور بہت خوفناک قرار دیا۔
احمدی کا خیال ہے کہ انہیں دہری برطانوی شہریت کے باعث جزوی طور پر حکومت کی طرف سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ اقدام ایرانی تیل بردار جہاز پر برطانوی قبضے کے بعد انتقامی کارروائی کے طور پر کیا گیا تھا۔
برطانیہ نے یہ جہاز جبرالٹر کے قریب روکا تھا کیونکہ اسے شبہ تھا کہ یہ جہاز ایران پر عائد پابندیاں توڑ رہا ہے۔

کامل احمدی کو دسمبر میں ایران میں9 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔(فوٹو ٹوئٹر)

احمدی نے کہا کہ اس کے علاوہ دیگر وجوہ بھی تھیں جن کی وجہ سے حکومت نے انہیں نشانہ بنایا تھا۔
تفتیش شروع ہونے کے ایک ہفتے کے اندرجہاز کو چھوڑ دیا گیا لیکن مجھے  میڈیا تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
میں قید تنہائی میں تھا لہٰذا میرے لئے حصول معلومات کا واحد ذریعہ تفتیش کارہی تھے۔
احمدی نے  بتایاکہ دہری شہریت ہونے کے ناتے آپ ہمیشہ ایک طاقتور کیس شمارہوتے ہیں۔میرے چیف تفتیشی افسرنے کہا کہ’’ آپ بہت مزے دارہیں‘‘کیونکہ میں کرد تھااور میرا تعلق سنی مذہب سے تھا جبکہ ایران میں اکثریت شیعہ ہے۔ اسی طرح میں ایک محقق تھا جوحساس موضوعات کرید رہا تھا۔
احمدی نے بدنام زمانہ ’’ایون جیل‘‘ میں تین ماہ گزارے۔ یہاں برطانوی دہری شہریت رکھنے والی نازنین زغاری، ریٹ کلف اور کائیلی مور گلبرٹ بھی قیدی رہ چکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ  وہ مجھے ایسا شخص بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے جسے برطانیہ نے ایران بھیجا ہو اور جسے غیر ملکی طاقتوں نے بھرتی کیا ہو۔
احمدی کو انکے پراسیکیوٹر کے اس دعوے کے بعد مجرم قرار دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ جب وہ ایک خیراتی ادارے میں کام کرتے تھے، اس وقت انہوں نے امریکہ سے فنڈنگ وصول کی تھی ۔
جج نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ عام طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کی شادی کی عمرمیں اضافہ کرنا دشمن کی حکمت عملی میں سے ایک ہے جس کا مقصد خاندانی نظام کو کمزوراور برباد کرنا ہے ۔
کامل احمدی نے کہاکہ میں نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا  کیونکہ میں اتنا عرصہ جیل میں قید اوراپنے بیٹے سے دور نہیں رہ سکتا۔ سزا کے بعد جب میں جیل سے رہا ہوں گا تو میرا بیٹا اس وقت 15سال کا ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیگ میں شیونگ کٹ، چند کتابیں اور لیپ ٹاپ رکھا اور نکل کھڑا ہوا۔ مجھے اپنی ہر محبوب شے کو  پیچھے چھوڑنا پڑا۔
 

شیئر: