اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اسد علی طور کو مبینہ طور پر ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
منگل کو رات گئے ان کے ساتھی صحافیوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ ’اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد علی طور پر و وفاقی دارالحکومت میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔‘
صحافتی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات ضروری کارروائی کرنے کے لیے پولیس سے رابطے میں ہیں۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب صحافی اعزاز سید نے واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ صحافی اور بلاگر اسد طور پر حملہ اور تشدد کیا گیا۔‘
Highly condemning act: Blogger #AsadToor has been attacked and tortured in Islamabad.
— Azaz Syed (@AzazSyed) May 25, 2021
حملے کے بعد جب صحافی اسد طور قریبی ہسپتال پہنچے تو کافی دیر تک ان کو علاج مہیا نہیں کیا گیا جس کے حوالے سے ایک اور صحافی عادل شاہ زیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ابھی پِمز پہنچا، اسد طور کو ابھی تک کوئی طبی علاج مہیا نہیں کیا گیا، ان کو بری طرح سے مارا گیا، بائیں ہاتھ / کہنی سے ابھی تک خون بہہ رہا ہے۔‘
Just arrived at PIMS, #AsadToor has not been given any medical treatment yet, he is breathless, been beaten up badly, left arm/elbow still bleeding.
— Adil Shahzeb (@adilshahzeb) May 25, 2021
صحافی اسد طور پر حملے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو مکمل آزادی ملنی چاہیے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایچ آر سی پی صحافی اسد طور کے گھر میں تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان پر وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، ہم اسے آزادی اظہار اور آزاد پریس پر اور ایک حملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ حکام حملہ آوروں کو فوری گرفتار کریں اور قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
HRCP strongly condemns the brutal assault on journalist @AsadAToor by three unknown men who barged into his residence. We see it as yet another attack on freedom of expression and a free press. HRCP demands that the authorities apprehend and charge the assailants immediately.
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) May 26, 2021
حملے کے بعد صحافی اسد طور نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’حملہ آوروں نے ان سے پوچھا کہ ان کو فنڈنگ کہاں سے آتی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ تنخواہ کے علاوہ ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں آتا، جس کے بعد حملہ آوروں نے ان کو زمین پر پٹخا اور کہا کہ خاموش ہوجاؤ آواز نہیں نکالنی۔‘
Highly condemnable #Asadtoor https://t.co/wgE7Ps0kpC
— Faisal Warraich (@FSWarraich) May 25, 2021
اسد علی طور پر حملے کے بعد صارفین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
سماجی کارکن شمع جونیجو نے لکھا کہ ’مطیع اللّہ جان، ابصار عالم، اور اب اسد علی طور۔۔۔ پاکستان میں سچ بولنا اور لکھنا منع ہے۔‘
مطیع اللّہ جان، ابصار عالم، اور اب اسد علی طُور۔۔۔
پاکستان میں سچ بولنا اور لکھنا منع ہے!
— Shama Junejo (@ShamaJunejo) May 25, 2021
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے لکھا کہ صحافی اسد طور پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے حملہ آور دیکھے جا سکتے ہیں، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری پولیس سے ضروری کارروائی کرنے کے لیے پہلے ہی رابطے میں ہیں۔
Condemn attack on journalist Asad Toor. Perpetrators are on the CCTV cameras and Info Min @fawadchaudhry has already been in touch with the police to take necessary action.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) May 26, 2021