Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی نوجوان کا ’تاریخی خزانوں سے بھرا ڈیجیٹل میوزیم‘

ڈیجیٹل میوزیم میں کرنسی، کتابیں، قیمتی پتھروں سمیت بہت سے نوادرات موجود ہیں (فوٹو: ٹریژر آف پاکستان)
لاہور سے تعلق رکھنے والے شہیر نیازی کو بچپن میں ملنے والے تحفے کا اثر کہیں یا ان کی ذاتی دلچسپی جو تاریخی خزانے یعنی نوادرات کے ڈیجیٹل میوزیم میں بدل گئی۔
21 برس کے شہیر نیازی اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) میں فزکس کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ ابتدا میں سکوں اور معدنیات کو جمع کرنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے شروع کیا گیا سلسلہ آگے بڑھا تو اسے ڈیجیٹل میوزیم کی شکل دی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ’پاکستان کے خزانے‘ کے نام سے موجود ڈیجیٹل میوزیم کے ذریعے نہ صرف دیکھنے والوں ان نوادرات سے متعارف ہوتے ہیں بلکہ وہ دلچسپ تاریخی معلومات سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔
شہیرنیازی کی انسٹاگرام سرگرمی کے’ڈیجیٹل میوزیم‘ کی شکل اختیار کرنے سے بہت پہلے ان کی کولیکشن مختلف ملکوں کے سکوں پر مشتمل تھی۔ اس میں قدیم ترین سکہ برصغیر پر برطانوی راج کے دوران 1890 کا تھا۔
انسٹاگرام پر موجود میوزیم میں مغل دور، دہلی کے بادشاہوں، ہنز، ابتدائی یونانی سکے، سکندراعظم کے عرصے تک کے نوادرات کی تصاویر شامل ہیں۔
نادر سکوں سے شروع ہونے والا معاملہ اب قیمتی پتھروں، دھاتوں، کرسٹلز اور قدیم کتابوں تک جا پہنچا ہے۔
شہیرنیازی کے ڈیجیٹل میوزیم پر پوسٹ کردہ نوادرات میں سے ایک 3500 قبل مسیح کا بھی بتایا جاتا ہے۔

 تقسیم برصغیر سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی دور کے سکے بھی میوزیم کا حصہ ہیں (فوٹو: ٹریژر آف پاکستان)

برصغیر کا پہلا پوسٹ کارڈ کہلانے والے ایسٹ انڈیا پوسٹ کارڈ کی تصویر بھی ڈیجیٹل میوزیم پر موجود ہے جس پر دسمبر 1891 کی مہر موجود ہے۔
فزکس میں ڈگری حاصل کرنے کے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ شہیر نیازی کی خواہش ہے کہ وہ آرکیالوجسٹ بنیں۔ ان کے آبائی گھر میں موجود ان کا کمرہ اور اس کا ہر کونہ مختلف نوادرات کا مرکز ہے۔

ڈیجیٹل میوزیم میں سکوں سمیت کتب اور دیگر قیمتی اشیا موجود ہیں (فوٹو: ٹریژر آف پاکستان)

شہیر نیازی کے ڈیجیٹل میوزیم میں موجود نوادرات جہاں مختلف مقامات سے خریدے گئے ہیں وہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو غیرملکیوں سے تبادلے میں حاصل کیے گئے ہیں۔
شہیر نیازی کی کولیکشن میں تاریخ کے مختلف انداز بتانے کے لیے اخباروں کے ایسے تراشے بھی موجود ہیں جو اس دور میں ابلاغ کے دلچسپ انداز پر روشنی ڈالتے اور دیکھنے والے کو لفظوں و معانی کی نئی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔

ڈیجیٹل میوزیم نہ صرف نوادرات کی تصویریں متعلقہ ذوق رکھنے والوں تک پہنچا رہا ہے بلکہ انسٹاگرام پر کی گئی پوسٹوں کے ساتھ موجود مختصر مگر دلچسپ جزئیات دیکھنے والے کی معلومات میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔
میوزیم میں پاکستان کے کچھ حصوں سے ملنے والے ایسے برتنوں کی تصاویر بھی موجود ہیں جنہیں 2600 سے 2800 قبل مسیح کی تاریخ کا بتایا گیا ہے۔
کیچ مکران کی قدیم تاریخ سے متعلق ان برتنوں کی تصاویر کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ قبل از تاریخ کے ان برتنوں اور اس دور سے متعلق 80 کے قریب آرکیالوجیکل سائٹس کی موجودگی بتاتی ہے کہ خطے میں کہیں زیادہ آبادی رہی ہے۔

ایسی ہی ایک پوسٹ کے مطابق بلوچستان میں دشت کا علاقہ قبل از تاریخ کے دور میں یہاں کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا علاقہ تھا۔
مغلیہ سلطنت کے دور کے سکوں وغیرہ کا ساتھ اس وقت سرکاری خط و کتابت کے لیے استعمال ہونے والی مہروں کی تصاویر بھی سائبرسپیس میں قائم میوزیم کا حصہ ہیں۔ 

مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر کے عرصہ اقتدار کے دوران 1670 کی ایسی ہی ایک مہر میں عاشور بیگ لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
آج کے دور میں ہتھیلیوں میں سما جانے والے جدید سمارٹ فونز کے کیمروں میں بھی درجنوں میگاپکسلز کی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے میں پاکستانی نوجوان کا ڈیجیٹل میوزیم گزشتہ صدی کے نصف میں استعمال ہونے والے کچھ کیمروں کی تصاویر سے بھی مزین ہے۔

ایسی ہی ایک تصویر میں 1950 کی دہائی کے ابتدائی عرصے کا ٹوین لینز ریفلکس کیمرہ دکھایا گیا ہے۔ اس میں کسی بیٹری کی عدم موجودگی میں بھی روشنی کے ساتھ حرکت کرنے والا میٹر موجود ہے۔
ٹریژرز آف پاکستان کی انسٹا ٹائم لائن پر ماضی کی سیر کے دوران ایسے دستاویزات بھی دکھائی دیتی ہیں جو اس وقت کے رسوم و رواج کو بہت تفصیل نہ سہی جھلک سی ضرور دکھاتے ہیں۔

برصغیر پر برطانوی قبضے کے دوران 1906 میں کراچی میں جاری کردہ ایک نکاح نامے کی تصویر میں جہاں مستقل عبارت کے ساتھ دلہا و دلہن سے متعلق تفصیل موجود ہے وہیں اس کے حجم کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
نوادرات کی دنیا میں اہم مسئلہ یہ رہتا ہے کہ اصل آرکیالوجی سائٹس سے نوادر غائب ہو کر انٹرنیشنل بلیک مارکیٹ میں پہنچتے ہیں جہاں سے وہ نجی کولیکٹرز کے ہاتھ لگتے ہیں۔ اس صورتحال میں ٹریژر آف پاکستان اس لیے بھی منفرد ہے کہ وہ مقامی آرکیالوجی سائٹس سے ملنے والی تاریخی اشیا کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے متعلق معلومات بھی عام شائقین تک پہنچاتا ہے۔
ٹریژر آف پاکستان کے نام سے سائبر ورلڈ میں ڈیجیٹل میوزیم کھڑا کرنے والے شہیر نیازی صرف فزکس کی ڈگری اور میوزیم ہی پر فوکسڈ نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے قبل امریکی میگزین فوربز کی انڈر تھرٹی فہرست کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔

شیئر: