Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کے دوران شدید گرمی، اس سال عازمین کے لیے کیا انتظامات کیے گئے تھے؟

رقبے کے لحاظ سے حجاج کی تعداد کا تعین کرنا ضروری ہے (فوٹو: ایس پی اے)
دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں افراد نے امسال فریضہ حج ادا کیا جن میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں یہ سعادت پہلی بار نصیب ہوئی۔
مجموعی طور پر حجاج کرام نے مناسک حج کی ادائیگی کے حوالے سے سعودی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے انتظامات کو قابل قدر قرار دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکومت کی طرف سے حج مناسک کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے آنے والے عازمین کو ہرممکن سہولت فراہم کی کوشش کی جاتی ہے۔
برسوں سے سعودی حکومت کا یہ امتیاز رہا ہے کہ حج ختم ہوتے ہی آئندہ برس کے لیے تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ اس میں تمام اداروں سے الگ الگ رپورٹ حاصل کی جاتی ہے تاکہ ان کا جائزہ لے کر حج سیزن میں ہونے والی کمی اور خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ برس کے لیے انہیں بہتر کیا جائے۔
رواں برس بھی حج ختم ہوتے ہی مکہ مکرمہ میں وزارت حج کے مرکزی دفتر میں 14 ذوالحجہ کو بڑے پیمانے پر تقریب منعقد کی گئی جس میں تمام اداروں سے رپورٹس اور آئندہ برس کے لیے تجاویز طلب کی گئیں۔

حج 1445 ہجری

وزارت حج کی جانب سے ہر برس سیزن کا آغاز ذوالقعدہ کے مہینے سے کر دیا جاتا ہے جبکہ اس کے لیے تیاریاں سارا سال جاری رہتی ہیں۔ امسال بھی حج سیزن کا آغاز پہلی حج پرواز کے مملکت آتے ہی ہو گیا تھا۔
رواں برس بھی وزارت حج کی جانب سے ماہ رمضان کے بعد سے ہی ’لاحج بلا تصریح‘ یعنی پرمٹ کے بغیر حج نہیں، کا سلوگن جاری کیا گیا ۔ یہ صرف سلوگن ہی نہیں تھا بلکہ عملی طور پر اس پر سختی سے عمل بھی کیا گیا۔

 حجاج کی رہنمائی اور مدد کے حوالے سے سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات مثالی رہیں (فوٹو: اردو نیوز)

سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے ذوالقعدہ کے آخری ہفتے سے ہی اس بات کا اعلان کر دیا گیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں مقیم وہ غیرملکی، جن کے پاس حج ویزہ نہیں ہے، انہیں حج کی اجازت نہیں ہو گی۔
 اس حوالے سے وزارت کے احکامات پرعمل کرتے ہوئے سکیورٹی اداروں نے سینکڑوں افراد کے خلاف کارروائی کی جو حج قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے۔

حج پرمٹ لازمی کیوں؟

حج ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مالی طور پر اس کی استطاعت رکھتا ہو اور جسمانی اعتبار سے بھی بہتر ہو۔
حج مقامات میں وادی منیٰ، مزدلفہ اورعرفات شامل ہیں جنہیں مشاعر مقدسہ کہا جاتا ہے۔ ان تینوں مقامات کا رقبہ محدود ہونے کی وجہ سے گنجائش سے زیادہ افراد کے آنے کی صورت میں بے پناہ انتظامی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حج امور کو منظم رکھنے کے لیے تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے تعداد کا تعین کرے۔ اسی لیے سعودی حکومت نے ہر ملک کے لیے حج کوٹہ مخصوص کیا ہوا ہے۔

  پرمٹ کا مقصد ایام حج میں امور کو منظم بنانا ہے (فوٹو: ایکس)

حج کی ادائیگی کے لیے مختلف سروسز فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کو عازمین حج کی رہائش اور دیگر امورکے انتظامات کا اختیار دیا جاتا ہے، تاکہ بیرون مملکت سے آنے والے حجاج کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مملکت میں مقیم لاکھوں غیرملکی جو اقامہ پر ہوتے ہیں، ان کے علاوہ سعودی شہریوں کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ حج خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے ہی مناسک حج کی ادائیگی کے لیے جائیں۔
مملکت کے شہری اور یہاں رہنے والے غیرملکیوں کو ہر پانچ برس بعد حج کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کے لیے وہ باقاعدہ طور پر مقررہ کمپنی سے حج سروسز حاصل کرتے ہیں، جو ان کے مکہ مکرمہ جانے اور حج ادا کرنے کا پرمٹ جاری کرانے کی مجاز ہے۔

مکہ مکرمہ میں جگہ جگہ چیک پوائنٹس بنائے گئے تھے (فوٹو: ایس پی اے)

رواں برس حج پرمٹ

سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے حج پرمٹ کے حوالے سے قانون پر سختی سے عمل کیا گیا۔ اس حوالے سے وزارت حج و دیگر اداروں کے تعاون سے ’نسک‘ پورٹل پر حج پرمٹ جاری کیا گیا جس کے علاوہ کسی کو حج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
ذوالحجہ کے آغاز سے ہی داخلی یعنی مملکت میں مقیم غیرملکیوں کو عمرہ کے لیے مکہ جانے کی پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کا مقصد حج آپریشن کو منظم بنانا تھا۔
مکہ مکرمہ کے داخلی راستوں پر سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم ہیں جہاں حج سیزن کے لیے اضافی اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر اہلکار شفٹوں میں 24 گھنٹے کی بنیاد پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔
سکیورٹی کے سسٹم کو فول پروف بنانے کے لیے اہلکاروں کو خصوصی ڈیوائس دی جاتی ہے جو ہر ایک کا پرمٹ چیک کرتے ہیں تاکہ جعلی پرمٹ کا سراغ لگایا جا سکے۔

مکہ شہر میں پرمٹ کی چیکنگ

 وزارت داخلہ کی جانب سے بار بار حج پرمٹ کے حوالے سے بیانات جاری ہوتے رہے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ پرمٹ کی چیکنگ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں بھی کی جائی گی۔

گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے جگہ جگہ فوارے موجود ہیں (فوٹو: ایس پی اے)

انتظامیہ کی جانب سے مکہ مکرمہ کے وہ علاقے جو وادی منیٰ سے متصل ہیں، وہاں سکیورٹی چیک پوسٹوں پر دسیوں اہلکاروں کو متعین کیا گیا تھا جو ہر آنے والے خواہ وہ مرد ہو یا خاتون کا پرمٹ دیکھنے کے بعد انہیں چیک پوائنٹ سےگزرنے کی اجازت دیتے تھے۔
سکیورٹی چیک پوسٹوں پر متعین اہلکار ’نسک پورٹل‘ کا پرمٹ دیکھتے تھے جو حجاج کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ جن افراد کے پاس نسک پرمٹ نہیں ہوتا تھا انہیں چیک پوائنٹ سے گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔

مشاعر میں انتظامات

امسال حج سیزن میں گرمی عروج پر رہی۔ اس حوالے سے محکمہ موسمیات کی جانب سے حجاج کو بار بار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات کی جاتی تھیں۔ موسمیات کے قومی مرکز کی جانب سے مسلسل درجہ حرارت اور موسم کے حوالے سےسوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انتباہی نوٹسز جاری کیے جاتے تھے جن میں حجاج کو کہا جاتا تھا کہ وہ گرمی کے پیش نظر چھتری کا استعمال لازمی کریں تاکہ ’لو‘ لگنے سے محفوظ رہیں۔

 ایک ہی مقام پرایک ہی وقت میں لاکھوں افراد کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے (فوٹو: ایس پی اے)

حج ایام میں مختلف سرکاری ادارے جن میں وزارت صحت، شہری دفاع، سکیورٹی سروسز، بلدیہ، ٹیلی کمیونیکیشن، مواصلات، محکمہ بجلی وپانی ، موسمیات وغیرہ شامل ہیں، کی جانب سے حجاج کی خدمت کے لیے کیے جانے والے مثالی انتظامات دیکھنے میں آئے۔
وزارت صحت کی جانب سے ہر برس کی طرح مشاعر مقدسہ میں ہسپتال اور طبی مراکز قائم تھے۔ علاوہ ازیں وادی منیٰ اور عرفات میں جگہ جگہ ڈسپینسرز کا جال بچھایا گیا تھا۔

ہر ایک کی مدد کرنا سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے خوشی کا باعث ہے (فوٹو: ایس پی اے)

ہلال الاحمر کے متحرک یونٹس بھی مشاعر مقدسہ میں جگہ جگہ موجود رہے، خاص کر حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کے لیے ہلال الاحمر کی ایمولینس سروسز کا کردار نمایاں رہا۔
سرکاری اداروں کی جانب سے حجاج میں چھتریاں بھی تقسیم کی جاتی رہیں جبکہ ہر تھوڑے فاصلے پر پانی کی سبیلیں موجود تھیں تاکہ گرمی سے پریشان حال لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

حجاج کی آمد و رفت

رقبہ محدود ہونے کی وجہ سے یہ امر انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ محدود مقام پر بیک وقت لاکھوں افراد کے اجتماع کو منظم کیا جائے۔
وزارت حج کی جانب سے جو منصوبہ مرتب کیا گیا اس میں اگرچہ جسمانی مشقت کا ہونا لازمی امر ہے تاہم حجاج کی آمد و رفت کو منظم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے راستوں کو جدا کیا جائے ۔

ماضی میں جمرات پل پرالمناک حادثات ہوئے تھے (فوٹو: اردونیوز)

اس حوالے سے انتظامیہ نے جمرات پل پر جانے اور واپس آنے والوں کے لیے جدا راستے مقرر کیے جس کی وجہ سے لاکھوں حجاج بحفاظت رمی کرنے کے بعد اپنے خیموں کو واپس لوٹ جاتے۔
ماضی میں جمرات پر کافی سنگین سانحے ہو چکے ہیں جو محض آمد و رفت کے راستے جدا نہ ہونے کی وجہ سے ہوئے۔ اس حوالے سے ماضی کے تجربات کی روشنی میں راستوں کا جدا کرنا درست اقدام ہے۔

شیئر: