Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان جیل میں نوکیا 3300 فون استعمال کرتے ہیں؟

خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان جیل میں دنیا کا محفوظ ترین موبائل نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان جیل میں دنیا کا محفوظ ترین موبائل فون نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں۔
منگل کے روز نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کا معاملہ زیادہ عرصہ معلق نہیں رہے گا، چند دنوں یا ہفتوں میں معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا ’میں خود بھی جیل میں رہا ہوں وہاں انسان اکیلا ہوتا ہے، مگر عمران خان جیل میں اتنے اکیلے نہیں ہیں، وہ سارا دن میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں، پرانا موبائل فون نوکیا 3300 بھی استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا محفوظ ترین فون سمجھا جاتا ہے، ہمیں تو جیل میں گفتگو کیلئے کوئی نہیں ملتا تھا مشقتی سے ہی بات کرتے تھے‘۔
وزیر دفاع نے کہا ’عمران خان میڈیا سے آئے دن گفتگو کرتے ہیں، ٹوئٹر پر ان کے بیانات چلتے ہیں، یہ سب ان کے خدشات ہیں، ظاہر ہے جو کچھ انہوں نے کیا ہوا ہے وہ سب ان کے دماغ میں بیٹھا ہوا ہے اس لیے وہ یہ اندازے لگا کر میڈیا کو بتاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تو جیل میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی کہ روز میڈیا سے بات کریں، ٹوئٹر بھی چلائیں اور اخباروں میں آرٹیکلز چپھوائیں۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر بھی خواجہ آصف کے عمران خان کے بارے میں بیانات زیر بحث ہیں اور ان میں سب سے زیادہ وائرل ہونے والا موضوع اس وقت نوکیا 3300 موبائل فون بنا ہوا ہے۔
بقول خواجہ آصف نوکیا 3300 دنیا کا محفوظ ترین فون ہے اور عمران خان جیل میں اس کا استعمال کرتے ہیں، اس پر سوشل میڈیا صارفین مختلف تبصرے کرتے دکھائی دیے۔
مدنی نامی صارف نے لکھا ’یہ کون سے وزیر دفاع ہیں، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’دنیا 5G پر چل رہی ہے اور یہ ابھی تک سانپ والا گیم کھیل رہے ہیں، انٹرنیٹ نہ سہی کم از کم زندہ رہنے کے لیے نوکیا 3300 بیچ کر ٹن ٹن تو کر سکتے ہیں۔‘

شاہد فیاض نے لکھا ’ میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ نوکیا 3300 کو پکڑنا مشکل ہے میرا جن دنوں جرمنی میں موبائل بزنس تھا وہاں اکثر روسی مافیاز کے لوگ آ کر 3210 یا 3300 موبائل مانگا کرتے تھے۔‘

جلال خان نے کہا ’دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ لوگ ابھی تک، نوکیا 3300 میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

دوسری جانب اگر نوکیا 3300 موبائل فون کا ذکر کیا جائے تو ویب سائٹ جی ایس ایم ایرینا کے مطابق یہ فون سال 2003 میں لانچ کیا گیا تھا، اس میں سیمبین ایس 30 کا آپریٹنگ سسٹم چلتا تھا۔ اس فون کو میوزک پلیئنگ فون کے طور پر مارکیٹ کیا گیا تھا۔


نوکیا 3300 کو میوزک پلیئنگ فون کے طور پر مارکیٹ کیا گیا تھا (فوٹو: جی ایس ایم ایرینا)

عام طور پر جب بھی نوکیا کا 3300 سیریز کا ذکر ہوتا ہے تو موبائل فون صارفین کے ذہن میں ایک ہی فون آتا ہے اور وہ ہے نوکیا 3310 جو مشہور زمانہ نوکیا کا مضبوط ترین فون سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے جس فون کا ذکر خواجہ آصف نے کیا ہے وہ 3310 سے مختلف ہے اور اس کے بعد لانچ ہوا تھا۔


نوکیا 3310 کو آج بھی اس کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے یاد رکھا جاتا ہے (فوٹو: جی ایس ایم ایرینا) 

اب سوال یہ ہے کہ آیا سیمبین فونز ٹریس کیے جا سکتے ہیں؟ سیمبین فونز کو ٹریس کرنے میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے مگر یہ ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
سیمبین فونز بنیادی فیچر فونز ہوتے ہیں جن میں جدید سمارٹ فونز کی طرح کنیکٹیویٹی یا ٹریکنگ کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں۔ تاہم، یہ مکمل طور پر ناقابل شناخت نہیں ہیں۔
میٹا اے آئی کے مطابق سیمبین فونز کے مقام کا اندازہ لگانے کے لیے سیل فون ٹاور کا ڈیٹا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کو ڈیوائس کی شناخت اور ٹریک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔  فون سے کی گئی کالز اور ٹیکسٹ کے ریکارڈز بھی نیٹرورک کمپنی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
جہاں نوکیا کے پرانے فونز ٹریس کیے جانے کا ذکر ہو ہی رہا ہے وہیں وائس میڈیا میں 2015 کی شائع کردہ رپورٹ کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے ڈرگ مافیا نوکیا کا 8210 فون استعمال کرتے تھے۔


وائس کے مطابق برطانیہ میں ڈرگ ڈیلرز نوکیا 8210 استعمال کرتے تھے(فوٹو: فلیکر، جیمز واٹلے)

نوکیا 8210 اس شخص کے لیے بہترین ہوتا تھا جسے تمام جدید آلات کے بغیر سیل فون کنیکٹیویٹی کی ضرورت ہوتی تھی۔ GPS کے بغیر، فون کو سیٹلائٹ کے ذریعے ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔ تھا وائی ​​فائی یا بلوٹوتھ کنیکٹیویٹی کے بغیر، پولیس کو ہینڈ سیٹ کے استعمال میں ہونے پر اس سے معلومات حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ اس کے باوجود، ڈیوائس میں ایک انفراریڈ فیچر بھی موجود ہوتا تھا ہے جو معلومات کی فوری منتقلی میں مدد دیتی تھی اور جرائم پیشہ افراد کو بار بار فون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔

شیئر: