Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مظالم کے شواہد: شام کی جیلوں میں دیواروں پر کندہ نقوش مٹانے پر غم و غصہ

رضاکاروں کی جانب سے رنگ و روغن کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
شام میں موجود جیل کی دیواروں پر قیدیوں کی جانب سے کندہ کیے گئے مختلف نقوش مٹانے کے لیے رضاکاروں کی جانب سے رنگ و روغن کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔
فرانس کی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شام میں  گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے نئی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ نقوش بشار الاسد  کے دور میں ہونے والے جرائم کے شواہد ہیں ان کی حفاظت کی جائے۔
گذشتہ ماہ شام سے بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کے بعد ہزاروں افراد کو جیلوں سے رہا کیا گیا لیکن کئی شامی باشندے اب بھی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی تلاش میں ہیں جو عرصہ سے لاپتہ ہیں۔
بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے کے بعد پیدا ہونے والے افراتفری کے ماحول میں جب صحافی اور اہل خانہ حراستی مراکز یا جیلوں کی صورتحال دیکھنے پہنچے تو وہاں سرکاری دستاویزات غیر محفوظ تھیں جن میں سے کچھ ضائع بھی ہو گئی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے شام میں دیواروں پر قیدیوں کے کندہ نقوش جو کہ  بشار دور کے مظالم کے شواہد ہیں، کو محفوظ رکھنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔
ان شواہد میں مختلف بیرکس کی دیواروں پر قیدیوں کی لکھی گئی تحریریں بھی شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ نوجوان رضاکار ایک نامعلوم حراستی مرکز کی دیواروں پر سفید رنگ کر کے نیا شامی پرچم یا ٹوٹی زنجیروں کی تصاویر بنا رہے ہیں جو اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔

جیلوں میں سرکاری دستاویزات غیر محفوظ تھیں جن میں کچھ ضائع ہو گئیں۔ فوٹو گیٹی امیجز

شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب صیدنایا جیل کے قیدیوں اور گمشدہ افراد کی ایسوسی ایشن کے شریک بانی دیاب سریا نے کہا ہے ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نئی تحقیقات شروع ہونے سے قبل جیل کی دیواروں پر رنگ کرنا غیرمناسب ہے۔‘
دیاب سریا نے کہا کہ یہ تشدد یا جبری گمشدگی کے نشانات مٹانے اور ثبوت جمع کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔
بشار الاسد دور میں تین مختلف حراستی مراکز میں قید رہنے والی جومانا حسن شتیوی نے کہا ہے ’ جیل کی اندرونی دیواروں پر لکھی تحریریں بے حد قیمتی معلومات ہیں۔‘

شام  میں بشار حکومت کے بعد ہزاروں افراد کو جیلوں سے رہا کیا گیا۔ فوٹو گیٹی امیجز

جومانا حسن نے فیس بک کے ذریعے کہا ہے ’ قیدی دیواروں پر اپنا نام اور فون نمبر لکھتے ہیں تاکہ رشتہ داروں سے رابطہ کر سکیں یا اہل خانہ کو اپنے بارے میں آگاہ کر سکیں۔‘
شام کی نئی انتظامیہ کو ملنے والی ایک درخواست میں ان شواہد کی بہتر حفاظت اور بشار الاسد دور میں جبری گمشدہ افراد کی تحقیقات کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا ہے’ جیل کی بیرکوں کو رنگ کر کے ایسے نقوش کو مٹا دیا ہے جو  قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناانصافی کی نمائندگی کرتے تھے۔‘

قیدی رابطوں کے لیے اپنا نام اور فون نمبر دیوار پر لکھتے ہیں۔ فوٹو گیٹی امیجز

بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی صدر میریان سپلجارک نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران لاپتہ ہونے والوں کے حالات کا تعین کرنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
ریڈ کراس کمیٹی کی صدر نےبتایا  ’ہم 43000 کیسز پر کام کر رہے ہیں لیکن شاید یہ لاپتہ افراد کی کل تعداد کا  کچھ حصہ ہے۔‘
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق 2011 سے شام میں ایک لاکھ سے زائد افراد حراستی مراکز میں تشدد یا صحت کی خرابی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
 

 

شیئر: