کلاوڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش عرب خطے کے لیے کتنی ضروری
کلاوڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش عرب خطے کے لیے کتنی ضروری
پیر 9 اگست 2021 13:27
2025 تک دنیا کی دو تہائی آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
ڈرون ٹیکنالوجی کا جہاں بہت سے منصوبوں میں استعمال ہو رہا ہے وہاں موسمیاتی تبدیلیوں میں بھی اس کے استعمال کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
عرب نیوز میں کلاوڈ سیڈنگ کے بارے میں شائع ہونے والےمضمون میں متحدہ عرب امارات میں سائنسدان بادلوں میں برقی چارجز کا استعمال کرتے ہوئے اب مصنوعی بارش کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا وسیع منصوبہ بنا رہے ہیں اور اس عمل کو کلاؤڈ سیڈنگ کہتے ہیں۔
دیگر خلیجی ممالک کی طرح امارات کو بھی گرمی اور خشک سالی کا سامنا ہے جہاں 2021 کے ابتدائی تین ماہ میں صرف 1.2ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی اور موسم گرما کا درجہ حرارت اکثر 50 علاقوں میں سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس لئے سائنسدان گرمی کاحل تلاش کر رہے ہیں۔
2007-2008 کلاؤڈ سیڈنگ فزیبلٹی سٹڈیز میں حصہ لینے والے سول انجینئر ڈاکٹر محمد شمروخ نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ متحدہ عرب امارات کے لئے یہ سائنسی یا تحقیقی تجربے کے طور پر ایک اہم اور دلچسپ اقدام ہے۔
متحدہ عرب امارات کے پاس میٹھے پانی کے اپنے قیمتی چند وسائل موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس کی معیشت درآمدات اور ڈی سیلینیشن یعنی سمندری پانی سے نمک نکال کر استعمال کے قابل بنانے کے عمل پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے تاکہ فصلوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
درحقیقت متحدہ عرب امارات نے کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کو بھی میٹھے پانی کی قلت سے نمٹنے کے ممکنہ طریقے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب نے بھی گزشتہ سال کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی پروگرام کی منظوری دی تھی جس کا مقصد مملکت میں بارش میں تقریبا 20 فیصد اضافہ کرنا تھا۔
امارات میں یہ کام اس سے قبل 2017 میں شروع ہوا تھا اور بارش میں اضافے کے9 منصوبوں میں 15 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ دنیاکے کل رقبے کا تقریبا71 فیصدحصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے(مینا) میں اس وسائل کی مقدار بہت کم ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مشرق وسطی میں پانی کا تناسب باقی دنیاسے قدرے کم ہےاور اس خطے میں موجود 17 ممالک کو پانی کے لحاظ سے غربت کی لکیر سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف مینا خطے کی زراعت کے لیے پانی کا استعمال تقریبا 80 فیصد ہے۔
اس زیادہ استعمال کا مطلب ہے کہ خطے میں زیر زمین پانی کے ذخائرکی طلب اور رسد میں ہم آہنگی نہیں ۔ سمندری پانی اور ڈیم کے بڑے منصوبے زیر غور ہیں مگر ان کے بھی اپنے ماحولیاتی نقصانا ت ہیں۔
پانی کی قلت کے وسیع پیمانے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خشک سالی، روزی روٹی کے مسائل، دیہی سے شہری علاقوں میں آبادیوں کے پھیلاو سے بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے پانی کے ذخیرے کے لیے تقریبا 130 ڈیم تعمیر کیے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تقریبا 120 ملین مکعب میٹر ہے تا کہ پانی کو بخارات بننے یا صرف سمندر میں بہنے سے روکا جا سکے ۔
سائنسدان بارش برسانے کے کئی طریقے تلاش کر رہے ہیں، امارات کی آب و ہوا دیگر خلیجی ممالک کی طرح ہے اور یہاں کلاؤڈ سیڈنگ کا تجربہ ان کے لیے بہت مفید ثا بت ہو سکتا ہے۔
اگر ڈرون تکنیک طویل مدت میں کامیاب ثابت ہوتی ہے تو کلاؤڈ سیڈنگ وسیع تر خطے میں پائیدار بارش میں اضافے کے منصوبوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس سے خشک سالی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد انسان پہلے ہی پانی تک قابل اعتماد رسائی سے محروم ہیں اور2.7 بلین افراد سال میں کم ازکم ایک مہینے تک پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2025 تک دنیا کی دو تہائی آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پیش گوئی یہ بھی کی گئی ہے کہ 2030 تک پانی کی فراہمی مزید کم ہو جائے گی جس کے لیے پائیدار حل پر عمل ضروری ہے۔
گذشتہ سال متحدہ عرب امارات نے موسم اور زلزلہ کے بارے میں اطلاعات کے قومی مرکز نے200 سے زائد کلاوڈ سیڈنگ آپریشن کئے ۔
اس مرکز میں ٹیکنیشنز اور پائلٹس کی ٹیم نے خاص قسم کے بادلوں پر150 تجربے کئے ہیں۔
ایسے بادل اکثر پہاڑی علاقوں اور امارات کے مشرق میں واقع الحجر پہاڑوں میں نظر آتے ہیں جو خلیج عمان سے آنے والی گرم ہوا کو روکتے ہیں۔
یہ بادل ایک ہزار میٹر کی اونچائی تک ہوتے ہیں جس کی چوڑائی ایک کلو میٹر تک نظر آتی ہے۔
دبئی میں زراعت کے بین الاقوامی مرکز میں آبی وسائل انتظام کے پرنسپل سائنسدان ڈاکٹر خلیل عمار نے بتایا ہے کہ امارات میں سابقہ تجربے کی بنیاد پر اب وہ پانی کے ہر قطرہ کی نگرانی کے نظام کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بادل کی کس قسم کو مخصوص ٹیکنالوجیز استعمال کر کے سیلاب یا زمین پر ہونے والے کسی بھی خطرے سے بچایا جا سکتا ہے۔
کلاؤڈ سیڈنگ تیزی سے بڑھتی ہوئی سائنس ہے جسے متحدہ عرب امارات میں بہتر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
خلیج اور وسیع مینا خطے میں بارشوں کی تقسیم اور شدت کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہونا آنے والے سالوں میں اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی کو زیادہ عام بناتی ہے۔
خلیل عمار نے مزید بتایا کہ بارشوں کو بڑھانے کے لیے معروف ٹیکنالوجیز کی تحقیقات اور استعمال جاری رکھنا بہت ضروری ہے تاہم سائنسدانوں کو ممکنہ ماحولیاتی مضر اثرات اور دیگر خطرات کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر خلیل نے کہا ہمیں اس کے فوائد پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل کلاؤڈ سیڈنگ کی بہت سی تکنیکیں ہیں۔
سائنسدانوں کو دنیا بھر سے نئے آئیڈیاز اور ہونے والی ایجادات پر نظر رکھنی چاہئے اور اگر تکنیکی لحاظ سے ممکن ہو تو انہیں یہاں لانا چاہیے۔
خلیل عمار نے کہا ہے کہ یہ ساری بارش انمول ہے اور کوئی بھی ملک اس قیمتی آبی وسائل کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔