ہیومن رائٹس واچ کی ایران سے مراد تحباز کو رہا کرنے کی اپیل
ہیومن رائٹس واچ کی ایران سے مراد تحباز کو رہا کرنے کی اپیل
منگل 29 مارچ 2022 20:18
مراد تحباز کو 21 مارچ کوتہران کے ایک ہوٹل کے کمرے میں منتقل کیا گیا۔ فوٹو عرب نیوز
ہیومن رائٹس واچ نے تہران میں مقید ایران نژاد امریکی شہری مدار تحباز کو جو برطانوی شہری بھی ہیں انہیں رہا کردینے کی اپیل کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مراد تحباز کو گذشتہ ہفتے جیل سے رہا کر کے ہوٹل میں منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے انہیں اچانک دو دن بعد واپس جیل منتقل کر دیا گیا جس کے بعد انہوں نے بھوک ہڑتال کر دی تھی۔
گذشتہ دنوں دو ایران نژاد برطانوی شہری نازنین زاغری ریٹکلف اور انوشیہہ اشوری کو چھ سال قید کاٹنے کے بعد رہا کر کے انگلینڈ بھیج دیا گیا ہے۔
مراد تحباز نے منگل کو بھوک ہڑتال ختم کر دی ہے جو انہوں نے واپس جیل لائے جانے پر احتجاجا شروع کی تھی۔
مراد تحباز کو ایران کی جاسوسی کرنے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ 2018 میں ماہرین ماحولیات کے ایک گروپ کے ساتھ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے یہاں مقیم تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی سینئر ایرانی محقق تارا سپہری کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے کہ یہاں زیرحراست دہری شہریت کے حامل قیدیوں اور غیر ملکیوں کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ برطانوی حکام نے بھی اپنی ان شرائط کو برقرار رکھنے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہےکہ گزشتہ چار برسوں کے دوران حکام نے زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جبکہ ان کے خلاف جھوٹے الزامات پر کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی شہری مراد تحباز کو 16 مارچ کو کچھ افراد لے گئے تھے اور 48 گھنٹے تک ان کے ساتھ گزارنے کے بعد دوبارہ انہیں کسی نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔
برطانیہ کے فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس کے ترجمان نے بتایا کہ مراد تحباز کو 21 مارچ کوتہران کے ایک ہوٹل کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ہوٹل کے اس کمرے میں مراد کے اہل خانہ نے جب کسی خوف کے سبب ان سے ملنے سے انکار کر دیا تو انہیں واپس جیل بھیج دیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اعلیٰ ایرانی عہدیداروں نے متعدد مواقع پر یہ اشارہ دیا ہے کہ انہیں حراست میں لیے گئے کارکنان کے جاسوس ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
واضح رہے کہ جاسوسی کے الزام میں زیر حراست کچھ افراد پہلے ہی انتقال کر چکے ہیں جب کہ مراد تحباز جو کینسر میں مبتلا ہیں اور جیل میں دو بارعالمی وبا کورونا کا شکار بھی ہو چکے ہیں، انہیں اب بھی صحت کے متعلق خدشات لاحق ہیں اور مناسب طبی امداد مہیا نہیں کی جا رہی۔