Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عمران خان کو شکست نظر آرہی ہے اور بچنے کا کوئی راستہ نہیں‘

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں استعفی نہ دینے کا اعلان کیا (فوٹو: ویڈیو گریب)
وزیراعظم عمران خان کے جمعرات کے روز قوم سے خطاب پر اپوزیشن رہنماؤں اور سوشل میڈیا کی جانب سے ملا جلا ردعمل دیا گیا ہے۔
جمعرات کو وزیراعظم کا خطاب ختم ہوتے ہی ان کے حامیوں نے جہاں تقریر کی تعریف کی وہیں اپوزیشن رہنماؤں نے اس پر تنقید کی ہے۔
عمران خان کی تقریر کے بعد ٹوئٹر پر ’سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، امریکہ اور تبدیلی کوڑے دان میں‘ کے ٹرینڈز سمیت متعدد ہیش ٹیگز کے تحت ان کی گفتگو پر بحث کی جاتی رہی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو ملک کے لیے سکیورٹی رسک قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی اقتدار بچانے کے لئے پاکستان کو نشانے پر لے آئے ہیں۔ خطاب ختم ہوگیا ہو تو 172 ارکان پورے کریں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’جس ملک کے صدر نے عمران خان کو کال نہیں کی وہ دھمکی کیوں دے گا؟‘
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم نے ثابت کر دیا کہ عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، وزیراعظم کو پارلیمان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ انہیں شکست نظر آرہی ہے اور بچنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔‘
بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔’ہم نے نیٹو سپلائی بند کی، ڈرون حملے کی مذمت کی۔‘
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کی تقریر کے بعد کی گئی ٹویٹ میں موقف اپنایا کہ ’یہ اس کرسی کے قابل نہیں تھے۔‘

عمران خان کے حامی اپوزیشن رہنما کے موقف سے متفق دکھائی نہیں دیے۔ باچا خانزادہ نے لکھا کہ ’اگر کوئی اس کرسی کے قبل ہے تو خان ہے۔‘

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمداللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’پرانی باتیں، پرانی تقریر، ابھی تک کنٹینر پرکھڑے لگ رہے تھے۔‘
وزیراعظم کے خطاب کے دوران اور اس کے بعد بھی ان کی تقریر کے مختلف جملے سوشل میڈیا پر شیئر کیے جاتے رہے۔
ٹیلی ویژن میزبان نادیہ مرزا نے عمران خان کی تقریر کا ایک حصہ نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ’کوئی بھی خوش فہمی میں نہ رہے۔ میں چپ نہیں رہوں گا۔‘

وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے تقریر کا وقت، جمعرات کی شام سوا سات بجے بتایا تاہم وزیراعظم کی تقریر آٹھ بجے شروع ہوئی اور 40 منٹ سے زائد وقت تک جاری رہی۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک انڈیا میں بھی میڈیا نے عمران خان کی تقریر کو دلچسپی سے دیکھا گیا۔
انڈین صحافی وکرنت گپتا نے لکھا کہ ’عمران خان اب پاکستان اور باقی دنیا سے خطاب کر رہے ہیں۔‘

 

خود کو پاکستانی کے طور پر متعارف کرانے والے کچھ ٹویپس نے انڈین میڈیا کی جانب سے عمران خان کی تقریر کو خصوصی توجہ دیے جانے پر اعتراض کیا۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ انڈین میڈیا اپنے معاملات چھوڑ کر پاکستانی وزیراعظم کی تقریر کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں انڈین ٹویپس نے موقف اپنایا کہ ’جب بھی پڑوسی ممالک میں اقتدار کی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے تو میڈیا اسے کور کرتا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔‘

عمران خان نے خطاب میں اپنی سابقہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور اس کے نتیجے کو ملکی مستقل کے لیے اہم قرار دیا۔
اپنی پارٹی کے منحرف ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قوم یہ چہرے نہیں بھولے گی۔

شیئر: