Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امارات میں خلائی شعبے کے لیے تین بلین درہم کا فنڈ قائم

خلائی پروگرام کی مدد کے لیے فنڈ کا قیام ریڈار سیٹلائٹ کے لیے نیا اقدام ہے۔ فوٹو عرب نیوز
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید نے اتوار کی صبح ٹوئٹر پر ایک پیغام میں خلائی شعبے کی مدد کے لیے تین بلین درہم (817 ملین ڈالر) کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امارات کے صدر نے نئے قومی سرمایہ کاری اور ترقیاتی فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے نیشنل سپیس فنڈ میں خلائی شعبے میں ترقی  کے لیے تین ارب اماراتی درہم رکھے ہیں۔
شیخ محمد بن زاید نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بڑھتے ہوئے خلائی پروگرام کی مدد کے لیے وقف فنڈ کا قیام اور ریڈار سیٹلائٹ تیار کرنے کے لیے نیا اقدام ہے۔
اس جدید سیٹلائٹ منصوبے کا  نام 'سرب' پرندوں کے جھنڈ کے لیے عربی اصطلاح پر رکھا گیا ہے۔
ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ سرب منصوبے سے خلائی شعبے میں ہماری بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو وسعت ملےگی اور ماحولیاتی پائیداری میں جدت کو تیز کیا جائے گا۔
ریڈار ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئےخلاء میں لانچ کیا جانے والا یہ پہلا منصوبہ ہے جو امیجنگ کی عمدہ صلاحیتیں فراہم کرنے کے لیے جدید ترین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہوگا۔

 سیٹلائٹ منصوبے کا نام 'سرب' پرندوں کے جھنڈ پر رکھا گیا ہے۔ فوٹو گلف نیوز

متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اس فنڈ کا مقصد خلائی شعبے میں قومی کمپنیوں کے قیام اور تحقیقی منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔
شیخ محمد بن راشد نے کہا کہ 'سرب' منصوبے کا مقصد خلائی شعبے میں امارات کی مسابقت کو فروغ دینا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی وام کی رپورٹ کے مطابق یہ سیٹلائٹ منصوبہ  وسیع پیمانے پر سائنسی، سول اور تجارتی ایپلی کیشنز کے ساتھ زمینی سطح کی تبدیلیوں اور خصوصیات کی انتہائی مفصل اور خاص قسم کی ریڈار تصاویر بنانے کے قابل ہو گا۔

کرہ ارض میں موسمیاتی تبدیلیوں کی نگرانی میں معاون ثابت ہو گا۔ فوٹو ٹوئٹر

وام کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی استحکام اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرے گا۔
کرہ ارض میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی نگرانی میں معاون ثابت ہو گا اور ماحولیاتی پائیداری کے لیے جدید حل تلاش کرنے میں  بھی مدد کرے گا۔

شیئر: