پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن علی بلال کی لاہور میں ہلاکت اور ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے احتساب اور سیاسی کارکنان پر تشدد کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
خیال رہے کہ علی بلال بدھ کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مارے گئے تھے اور ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ ان کی موت پولیس کے تشدد کی وجہ سے ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
پی ٹی آئی کی ریلی: کوریج پر پابندی لگی تو پولیس کے تیور بدل گئےNode ID: 748976
پولیس کی جانب سے علی بلال کی موت کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیم بنا دی گئی ہے اور ادارے کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں مردہ حالت میں کالے رنگ کی گاڑی میں سروسز ہسپتال لایا گیا اور ان کو لانے والے فوری طور پر غائب ہوگئے۔
ٹوئٹر پر کچھ صارفین کی جانب سے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی جا رہی ہیں جس میں علی بلال کو پولیس وین میں بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مقامی میڈیا کے ایک رپورٹر کے مطابق انہوں نے بدھ کے روز لاہور کے کنال روڈ پر علی بلال سے بات بھی کی جو دیگر گرفتار کارکنان کے ساتھ پولیس کی گاڑی میں بند تھے۔
A reporter from PNN Tv Zohaib Kazmi confirms this video is of yesterday and he filmed it himself, this is huge, Zohaib was himself talking to the victim in the clip yesterday while he was captured in the police van.
#Zaman_Park_Lahore pic.twitter.com/wIHMjMdcU7— Tanzil Gillani (@TanzilGillani) March 9, 2023
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بلال کے جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات موجود تھے۔
Initial doctors report on ali bilal pic.twitter.com/Lv6zym10y5
— Zarrar Khuhro (@ZarrarKhuhro) March 9, 2023
سیاسی کارکن کی ہلاکت پر سیاستدان، میڈیا سے منسلک شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنان شفاف انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’سیاسی کارکن چاہے کسی بھی جماعت سے ہو یہ عمل (تشدد و ہلاکت) سوائے بربریت کے علاوہ کچھ نہیں۔‘
شواہد کی روشنی میں اِس بات کا قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن علی بلال کی ہلاکت دورانِ حراست پولیس تشدد سے ہوئی۔ سیاسی ورکر چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، یہ عمل سوائے بربریت کے کچھ نہیں۔ یہ عمل نگران حکومت کے غیر جانبدار ہونے پر اور شفاف الیکشن کرانے پر بھی سوال اُٹھاتا ہے۔
— Mustafa Nawaz Khokhar (@mustafa_nawazk) March 9, 2023
انسانی حقوق کے کارکن اور بائیں بازو کے سیاسی رہنما عمار علی جان نے لکھا کہ ’ہم قیمتی سیاسی کارکنان کو کھو دیتے ہیں کیوں کہ یہاں احتساب ناپید پید ہے۔ ایسا ہی ہوتا رہے گا جب تک وردی والوں کو سزا نہیں ملے گی۔‘
Details of torture on Ali Bilal are absolutely shocking. We remember how police violence led to the martyrdom of Professor Arman Loni in Balochistan. We lose precious political workers because there is no accountability. Cycle will continue unless thugs in uniform are punished.
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) March 10, 2023
تجزیہ کار مرتضی سولنگی کا کہنا ہے کہ اس وقعے کی صاف و شفاف تحقیقات درکار ہیں تاکہ علی بلال کی موت کے ذمہ داوں کا تعین کیا جا سکے۔
A fair and transparent investigation with unrestricted access to media to investigate the death of Ali Bilal must be conducted to determine the responsible for his death. Anything short of that would complicate matters rather than solving any.
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) March 10, 2023
ماہر قانون ریما نے لکھا کہ ’علی بلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، ان لوگوں کی شہادتیں جنہوں نے انہیں پولیس وین میں بیٹھتے ہوئے دیکھا اور دیگر شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی موت میں پولیس ملوث ہے۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’جب نگران حکومت خود اس میں ملوث ہے تو شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟‘
Ali Bilal’s post-mortem report, testimonies of people who saw him being taken in police van, and other public material show police/state involvement in his killing
Horrific and condemnable beyond measure. When caretaker govt itself responsible, how can it ensure accountability?
— Reema Omer (@reema_omer) March 9, 2023