1970 میں چین نے اپنے سلوگن ’دوبم ایک سیٹلائٹ ‘ کو عملی شکل دے کر عالمی سطح پر پانچویں ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کردیا۔ (فوٹو: گلوبل ٹائم)
دو ستمبر 1945 کو دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے ساتھ اور جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایشیا کے منظرنامے پر چین میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی جو 1937 میں جاپانی مداخلت کے بعد کئی برس تک جاری رہی تھی۔
العربیہ کے مطابق چینی خانہ جنگی کے اس دوسرے مرحلے میں کمیونسٹوں نے کامیابی حاصل کی جس کے بعد بالاخر 1949 میں چنگ کائی شیک کی قیادت میں جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
عوامی جمہوریہ چین کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ماؤ زے تنگ نے درپیش بیرونی خطروں سے نمٹنے کے لیے ملک کو مسلح کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
اس حوالے سے چینی رہنما نے لوگوں کی توجہ ایٹم بم کے حصول کی جانب مبزول کراتے ہوئے ’دو بم، ایک سیٹلائٹ‘ کے عنوان سے ایک فوجی پروگرام کے آغاز کا اعلان کیا۔
سائنسی ترقیاتی منصوبہ
چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں متعدد چینی سکالر جن میں کیان وای شوانگ، کیان غویوسین، دونگ جیکسن شامل تھے نے امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد چین واپسی کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے یہ فیصلہ ملک میں ہونے والی اصلاحات کے بعد کیا تاکہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔ ان ماہرین نے چین میں فضائی اور ایٹمی پروگراموں پر کافی کام کیا۔
جنوری 1955 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اجتماع کے بعد ماؤ زے تنگ نے سرکاری طور پر اس کا اعلان کیا کہ ان کا ملک ایٹمی اسلحہ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔
اس کے ساتھ ہی چینی ذمہ داروں نے فزکس اور کیمیسٹری کے سینکڑوں ماہرین سے رابطہ شروع کیا تاکہ وہ چین کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے لیے مناسب پروگرام پیش کر سکیں۔ اس پروگرام کو ’دو ایٹم بم اور ایک سیٹلائٹ‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔
اس پروگرام کے تحت چین نے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور ایک سیٹلائٹ حاصل کرنے کی کوششوں کو زوروشور سے شروع کر دیا۔
دو ایٹم بم اور ایک سیٹلائٹ
1958 میں دائیں بازو اور فارورڈ پالیسی گروپ کی جانب سے ہونے والی مداخلت کے باعث چین کا سائنسی تحقیق کا کام تاخیر کا شکار ہو گیا۔ بعد ازاں چین کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے۔
دوسری جانب 1950 کی دہائی میں چینی اور سویت یونین کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ماسکو نے بیجنگ کے لیے اپنی حمایت ختم کر دی اور اپنے سائنسدانوں کو واپس بلا لیا جو چین میں جوہری ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے۔
اسی سوویت امداد کی بدولت ہی چین اپنا پہلا جوہری ری ایکٹر تیار کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
1960 کی دہائی کے اوئل میں ایک بار پھر اس سلوگن ’دو ایٹم بم اور ایک سیٹلائٹ‘ کی گونج چین میں سنی گئی جسے شدید اختلاف کی وجہ سے سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔
تاہم اب چینی جوہری سائنسدان ایک بار پھر اس سلوگن پر کام کرنے لگے۔
سال 1964 میں چین نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کامیابی سے کیا۔ بعد ازاں چین نے ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹ کا تجربہ 1966 میں کیا جس کا حکم ماؤزے تنگ نے سال 1966 کے آغاز میں ہی دے دیا تھا۔
سنہ 1967 میں جمہوریہ چین نے اپنے پہلے ہائیڈروجن بم کا بھی کامیاب تجربہ کیا۔ اپریل 1970 میں چین نے اپنے سلوگن ’دو بم اور ایک سیٹلائٹ‘ کو عملی شکل دے کر عالمی سطح پر پانچویں ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کر دیا۔