Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ورغلا کر پہاڑوں میں لے جایا گیا‘، مبینہ خودکش حملہ آور عدیلہ بلوچ

عدیلہ بلوچ کے والد نے بتایا کہ اُن کی بیٹی نرس ہے جس کو ورغلایا گیا۔ فوٹو: سکرین گریب
بلوچستان کے صوبائی حکام نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مبینہ خاتون خودکش حملہ آور عدیلہ  بلوچ کو پیش کیا جنہوں نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ انہیں ورغلا کر پہاڑوں پر لے جایا گیا تھا تاکہ خودکش حملے کے لیے تیار کیا جا سکے۔
عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیم نے انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم حکومت کی کوششوں سے نہ صرف وہ خود زندہ بچ گئیں بلکہ کئی دوسرے بے گناہوں کی جانیں بھی بچا لی گئیں۔
حکومت بلوچستان کے زیراہتمام اس پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند، بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی فرح عظیم شاہ کے علاوہ عدیلہ بلوچ کے والدین بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس میں صحافیوں کی شرکت کو محدود رکھا گیا تھا جنہیں موبائل فون اور کیمرے لانے کی اجازت نہیں تھی۔ صرف سرکاری ٹی وی کو کوریج کی اجازت دی گئی تھی۔
عدیلہ بلوچ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اُن کا تعلق تربت سے ہے اور ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی جس کے بعد نرسنگ کا کورس کوئٹہ کے بولان میڈیکل ہسپتال سے کیا۔ کوالیفائیڈ نرس ہونے کے ساتھ وہ ڈبلیو ایچ او کے ایک پراجیکٹ میں بھی کام کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا کام لوگوں کی زندگیاں بچانا اور لوگوں کی مدد کرنا ہے لیکن اس دوران بد قسمتی سے ایسے لوگوں سے رابطے میں آئی جنہوں نے مجھے ایسے دکھایا کہ میں خودکش حملے کے لیے راضی ہو گئی ہوں۔ میں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ خودکش حملہ کرنے سے نہ صرف میری جان چلی جائے گی بلکہ کتنے ہی اور لوگوں کی جان جا سکتی ہے۔‘
عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس غلطی کا احساس پہاڑوں پر جا کر ہوا جہاں میں نے تین دن گزارے اور انتہائی سخت حالات دیکھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہاں جا کر آپ کو نئی زندگی ملے گی لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہاں چاروں طرف ایسے نوجوان تھے جنہیں ورغلا کر ان کے ہاتھوں میں بندوقیں دی گئیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نے پہاڑوں پر جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا اور نہ ہی اُن کی عزت پر حرف آتے دیکھا۔‘
عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’یہ جو آج کل تاثر ہے کہ بلوچ خواتین اپنی مرضی سے حملے کرتی ہیں یہ غلط ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ یہ لوگ بلیک میلنگ کر کے اور ورغلا کر لے جاتے ہیں۔ میں غلط راستے پر چل رہی تھی لیکن مجھے پتہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہاں میرے علاوہ ایک اور خاتون بھی تھی لیکن اس کی شناخت مجھے پتہ نہیں کیونکہ پہاڑوں پر  ایک دوسرے کے اصل نام کی بجائے کوڈ نام استعمال کئے جاتے ہیں۔‘
مبینہ خودکش حملہ آور کا مزید کہنا تھا کہ ’آج اگر میں بچ گئی ہوں تو شاید میں ان نوجوانوں کو پیغام دینے کا ذریعہ بن رہی ہوں جنہیں ورغلا کر لے جایا گیا۔ وہ واپس آئیں اور یہ غلطی نہ کریں جو میں نے کی۔ میں انہیں نصیحت کرنا چاہتی ہوں کہ ایسے لوگوں کی باتیں میں نہ آئیں جو آپ کو اپنے مقصد اور مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’میں حکومت بلوچستان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ ان کی وجہ سے متاثر ہونے سے بچ گئی۔ میں بہت بڑا گناہ کرنے جا رہی تھی ۔ میں ان کے ارادوں سے بچ گئی۔‘
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بتایا کہ بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں کچھ ایسی تخریب کاری کی کارروائیاں ہو چکی ہیں جن میں خواتین خودکش حملہ آوروں کو استعمال کیا گیا۔ ’16 ستمبر کی رات تربت کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے ایک شخص نے رابطہ کیا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہے اور ان کے بارے میں پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہے۔‘
شاہد رند کے مطابق چونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی واقعات ہو چکے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو اعلیٰ سطح پر دیکھا گیا۔ ضلعی انتظامیہ، صوبے کی سطح پر پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فیملی کے ساتھ رابطہ کیا۔ اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ تربت کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ایک خاتون جن کا عدیلہ اور وہ خدا بخش کی بیٹی ہیں، لاپتہ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فیملی کی طرف سے ریاست اور اس کے اداروں سے رابطہ کیا گیا ’تو پہلی ترجیح ان کی بحفاظت بازیابی تھی جس کے لیے سیکیورٹی اداروں اور خاندان نے بھی تعاون کیا اور اپنا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں آج عدلیہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں موجود ہے۔‘
اس موقع پر عدلیہ بلوچ کے والدین نے بھی گفتگو کی اور بیٹی کی بازیابی پر حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
عدیلہ بلوچ کے والد خدا بخش بلوچ نے کہا کہ ’میں کراچی میں ایک بینک ملازم ہوں ۔ آپ کو پتہ ہے ایک بینکر کی کیا تنخواہ ہوتی ہے لیکن میں نے اپنی قلیل تنخواہ سے اپنے گھر کو بھی چلایا اور اپنی بیٹی کو بھی پڑھایا تاکہ یہ اپنے قوم اور علاقے کے لیے اچھا انسان بنے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی جو میرے بس میں نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بیٹی کو پڑھایا۔ میری بیٹی لائق تھی، وہ نرس بنی اور ملازمت بھی مل گئی۔ ہماری اپنی ایک چھوٹی سی دنیا تھی جو ایک ہفتہ قبل اُس وقت اچانک بدل گئی جب معلوم ہوا کہ عدیلہ لاپتہ ہے۔‘

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ عرصے میں تشدد کے متعدد واقعات ہوئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’بھاگ دوڑ کی تو پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے میری بیٹی کو ورغلایا اور ان کو خودکش حملہ کرنے کے لیے پہاڑوں پر لے گئے جس پر میری حالت بہت خراب ہوگئی اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کروں کیا  کیونکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جو پہاڑوں پر جائیں ان کا واپس آنا ممکن نہییں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آزادی کے لیے نہیں بلکہ اپنے مقصد اور مفاد کے لیے لوگوں کو لے جاتے ہیں بچوں کو بم باندھ دیتے ہیں پھر ان کی لاش کے ٹکرے بھی نہیں ملتے۔‘
خدا بخش بلوچ کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی ایک تنظیم کے پاس تھی وہاں پر جانا میرے بس کی بات نہیں تھی اس لیے میں نے حکومت بلوچستان سے رابطہ کیا تاکہ میری بیٹی کو چھڑایا جا سکے۔ بروقت کارروائی کے ذریعے عدیلہ کو بازیاب کرا لیا۔ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کی مہربانی ہے کہ میری بیٹی یہاں پر بیٹھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ ہم نےاپنے بچی کو بچانے کے لیے محنت کی۔ وہاں پر اور بھی لوگوں کے بچے ہیں ان کے والدین بھی حکومت سے رابطہ کریں کیونکہ وہی انہیں بچا سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا ان لوگوں کو پیغام ہے جن کے بچے سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ بچے بھی  ایسی سرگرمیوں کے بارے میں اپنے والدین کو بتائیں اس طرح وہ بڑے حادثے سے بچ جائیں گے۔‘
خدا بخش بلوچ کا کہنا تھا کہ ’پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے بھی بلوچ ہیں، ہم بھی بلوچ ہیں۔ ایک بلوچ دوسرے بلوچ کی بیٹی اپنے مقصد کے لیے اٹھا کر لے جائیں یہ کون سی بلوچیت ہے۔ ہم نے بچوں کو اس لیے نہیں پڑھایا کہ انہیں اس طرح ضائع کیا جائے۔ نوجوانوں کو پیغام ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف پروپیگنڈہ ہے حقیقت میں کچھ نہیں۔ ہمارے پیغام سے ایک بھی بندہ واپس آیا تو یہ ہماری کامیابی ہوگی۔‘
اس موقع پر رکن بلوچستان اسمبلی فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ریاست نے کھلے ہاتھوں سے عدیلہ اور ان کی فیملی کو قبول کیا ہے۔ ’آج ان بلوچوں کو بھی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ خدارا یہ لڑائی بند کریں جس میں نقصان صرف بلوچستان اور یہاں کی معصوم عوام کا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حقوق کی بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جہاں پر پاکستان کے آئین اور ریڈ لائن کی بات آئے گی وہاں ریاست کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ ’ایسے بچے اور بچیاں جو دہشتگردوں کے پاس قید ہیں میں ان کے ماں باپ کو بھی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ وہ ریاست اور حکومت سے ضرور رابطہ کریں جو بھی مدد آپ مانگیں گے ہم آپ کو دیں گے۔ کیونکہ بلوچستان میں بسنے والے سب حکومت اور ریاست کے بچے ہیں۔‘

شیئر: